Ameen Rahat Chugtai

امین راحت چغتائی

  • 1930

امین راحت چغتائی کی غزل

    کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول

    کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول خاک اڑتی ہے اب جہاں تھے پھول بھیگی بھیگی سی دیکھ کر کلیاں مسکرائے جہاں جہاں تھے پھول دل میں گلشن کھلا گئے کیا کیا یوں تو دو دن کے میہماں تھے پھول جب خزاں آئی جاں پہ کھیل گئے محرم جہد بے کراں تھے پھول جس نے توڑا اسی کو رنج ہوا مثل پیمانۂ مغاں تھے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کوہ نارسا بن کر بھرم رکھا ترا

    دیکھ کوہ نارسا بن کر بھرم رکھا ترا میں کہ تھا اک ذرۂ بیتاب اے صحرا ترا کون ساقی کیسا پیمانہ کہاں صہبائے تیز آبرو یوں رہ گئی ہے سر میں تھا سودا ترا سب گریباں سی رہے ہیں صحن گل میں بیٹھ کر کون اب صحرا کو جائے، ہے کہاں چرچا ترا اب عناصر میں توازن ڈھونڈنے جائیں کہاں ہم جسے ہم راز ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ایک سزا ہو جیسے

    زندگی ایک سزا ہو جیسے کسی گنبد کی صدا ہو جیسے رات کے پچھلے پہر دھیان ترا کوئی سائے میں کھڑا ہو جیسے آم کے پیڑ پہ کوئل کی صدا تیرا اسلوب وفا ہو جیسے یوں بھڑک اٹھے ہیں شعلے دل کے اپنے دامن کی ہوا ہو جیسے رہ گئے ہونٹ لرز کر اپنے تیری ہر بات بجا ہو جیسے دور تکتا رہا منزل کی ...

    مزید پڑھیے

    روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی

    روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی تیرگی کے باب میں بھی روشنی لکھو کبھی سانس لینا بھی مقدر میں نہیں جس عہد میں بیٹھ کر اس عہد کی بھی ان کہی لکھو کبھی درد دل درد جگر کی داستاں لکھی بہت نان خشک و آب کم کو زندگی لکھو کبھی مصلحت پر بھی کبھی ہوتے رہے قرباں اصول ان اصولوں کو بھی ان کی ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا

    جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا پھر اہل زمیں پر کوئی الزام نہ ہوگا کل وہ ہمیں پہچان نہ پائے سر راہے شاید انہیں اب ہم سے کوئی کام نہ ہوگا پھر کون سمجھ پائے گا اسرار حقیقت جب فیصلہ کوئی بھی سر عام نہ ہوگا یہ عہد رواں خاک نشاں دھیان میں رکھو پھر ڈھونڈو گے کس کو جو کوئی نام نہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے

    تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے کچھ دکھائی دے تو بتلائیں نظر میں کون ہے کیوں جلاتا ہے مجھے وہ آتش احساس سے میں کہاں ہوں یہ مرے دیوار و در میں کون ہے ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے چاک کیوں ہوتے ہیں پیراہن گلوں کے کچھ کہو جھک ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تھے جان بہاراں ہمیں تھے رنگ طرب

    ہمیں تھے جان بہاراں ہمیں تھے رنگ طرب ہمیں ہیں بز‌م مے و گل میں آج مہر بہ لب وہی تجھے بھی نظر آئے بے ادب جو لوگ فقیہ شہر سے الجھے تری گلی کے سبب خیال و فکر کے پھر سلسلے سلگ نہ اٹھیں کہ چبھ رہی ہے دلوں میں ہوائے گیسوئے شب بس ایک جام نے رندوں کی آبرو رکھ لی وگرنہ کم نہ تھا واعظ کا ...

    مزید پڑھیے

    میں تری دسترس سے بہت دور تھا

    میں تری دسترس سے بہت دور تھا پھر بھی نزدیک آنے پہ مجبور تھا آج میں ہی سزاوار جور و ستم کل تری مانگ کا میں ہی سندور تھا کون آتا ہے یوں زیر دام ان دنوں رات تاریک تھی آشیاں دور تھا کچھ خلوص وفا پر بھی نادم تھا میں اور کچھ دل کے زخموں سے بھی چور تھا آئنہ دیکھ کر یوں ندامت ہوئی میں ...

    مزید پڑھیے

    آج وہ پھول بنا حسن دل آرا دیکھا

    آج وہ پھول بنا حسن دل آرا دیکھا سچ ہوا پچھلے برس جو بھی کہا تھا دیکھا دھیان میں لائے تصور میں بسایا دیکھا اتنا ہی اجنبی پایا اسے جتنا دیکھا کس وسیلے سے بھلا عرض تمنا کرتے ہم نے جس وقت بھی دیکھا اسے تنہا دیکھا کب سے احساس پہ اک بوجھ لیے پھرتے ہیں کاش پوچھو کہ بھری بزم میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    کسی مکاں کے دریچے کو وا تو ہونا تھا

    کسی مکاں کے دریچے کو وا تو ہونا تھا مجھے کسی نہ کسی دن صدا تو ہونا تھا جسے خمیدہ سروں سے ملے قد و قامت اسے کسی نہ کسی دن خدا تو ہونا تھا میں جانتا تھا جبینوں پہ بل پڑیں گے مگر قلم کا قرض تھا آخر ادا تو ہونا تھا یہ کیا ضرور پتہ پوچھتے پھریں اس کا ملا ہی یوں تھا وہ جیسے جدا تو ہونا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2