گلیڈیولا
مری کی الھڑ پہاڑیوں کے چبوتروں پر
ہری ہری نرم لابنی لابنی گھاس سے سر کشیدہ شاخیں
ہتھیلیوں پر سجائے سیندھوری گل ادا سے
فضائے خوش رنگ میں لہک کر
ہر ایک رہرو کے دامن دل کو کھینچتی ہیں
صبا کی سرگوشیاں مسلم
یہ کیسے گل ہیں کہ ان کی خوشبو سے چونکتا بھی نہیں ہے کوئی
مگر انہیں دیکھ کر کئی تیز گام رہرو
سنبھل کے چلنے میں عافیت کا سہارا لے کر
خیال کی وادیوں میں ایسے اترنے لگتے ہیں جیسے کوئی اتارتا ہو پری کو شیشے میں خامشی سے
کسی کے رنگوں کی آنچ ہے اور کسی کے وجدان کا تحیر
یہ اضطرار نگاہ بھی ہے یہ اضطراب قلوب ہے
یہ بوستان جمال کے خوش خرام رہرو
ہجوم رنگ خیال میں راہ سے بھٹک کر
ابد کی منزل کو دم بہ دم ڈھونڈتے رہیں گے
یہ ایک ساعت کا رنگ جس میں سرور بھی ہے وقوف بھی ہے
یہی فراز ابد کے رستوں کا راز داں ہے
یہ رنگ آنکھوں کو خیرہ کر دے تو کون دیکھے
ورائے حد نگاہ کیا ہے