Ameen Inamdar

امین انعامدار

  • 1960 - 2008

امین انعامدار کی غزل

    کسی کسی پہ خدا مہرباں زیادہ ہے

    کسی کسی پہ خدا مہرباں زیادہ ہے وہ جانتا ہے ضرورت کہاں زیادہ ہے زباں سے پوچھئے مت ہاتھ دیکھیے رکھ کر بدن میں درد کہاں کم کہاں زیادہ ہے چراغ عمر کی لو نے دلا دیا احساس کہ اس میں روشنی کم ہے دھواں زیادہ ہے مری سنو تو کدورت کا کھیل مت کھیلو کہ اس میں سود بہت کم زیاں زیادہ ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    خوشا نصیب حقیقت یہ دل نے مانی ہے

    خوشا نصیب حقیقت یہ دل نے مانی ہے حیات ہم کو بتانی نہیں بنانی ہے رکھے بھی کوئی تو کیوں کر تعلق خاطر میں اک جزیرہ مرے ارد گرد پانی ہے یہ کیا کہ رائی کا پربت بنا دیا تم نے ہمارا دل تو حوادث کی راجدھانی ہے ہماری پیٹھ میں خنجر اتارنے والے ستم کی طرز بدل دے بہت پرانی ہے بہت سے اہل ...

    مزید پڑھیے

    ہر دل میں بے بسی کی چبھن چھوڑ جاؤں گا

    ہر دل میں بے بسی کی چبھن چھوڑ جاؤں گا جب بھی تجھے اے ارض وطن چھوڑ جاؤں گا حاصل تمام عمر کا دھن چھوڑ جاؤں گا یعنی زبان گنگ و جمن چھوڑ جاؤں گا مغموم کس لیے ہے اری سر پھری خزاں میں تیرے نام اپنا چمن چھوڑ جاؤں گا کانٹے کریں گے یاد مری چاک دامنی پھولوں کو محو رنج و محن چھوڑ جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    صاف دل اور نظر پاک لیے پھرتے ہیں

    صاف دل اور نظر پاک لیے پھرتے ہیں مفلسی میں بھی یہ املاک لیے پھرتے ہیں دیجئے داد کہ اس دور پر آشوب میں ہم بے خطر لہجۂ بے باک لیے پھرتے ہیں ہم نے ہر حال میں جینے کا ہنر سیکھ لیا آپ کیوں دیدۂ نمناک لیے پھرتے ہیں خوش لباسی ہے فقط لائق تعظیم یہاں اور ہم دامن صد چاک لیے پھرتے ...

    مزید پڑھیے