کسی کسی پہ خدا مہرباں زیادہ ہے

کسی کسی پہ خدا مہرباں زیادہ ہے
وہ جانتا ہے ضرورت کہاں زیادہ ہے


زباں سے پوچھئے مت ہاتھ دیکھیے رکھ کر
بدن میں درد کہاں کم کہاں زیادہ ہے


چراغ عمر کی لو نے دلا دیا احساس
کہ اس میں روشنی کم ہے دھواں زیادہ ہے


مری سنو تو کدورت کا کھیل مت کھیلو
کہ اس میں سود بہت کم زیاں زیادہ ہے


نہ کیجے بات فرشتوں سے تلخ لہجے میں
گلی میں شور جو وقت اذاں زیادہ ہے


مقابلے کا اندھیروں سے حوصلہ ہے تو پھر
ذرا سا نور بھی جگنو میاں زیادہ ہے


ازل سے دونوں میں رشتہ اٹوٹ ہے تو امینؔ
حیات موت سے کیوں بد گماں زیادہ ہے