اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی
اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی ہر نظر خود میں کوئی شہر ہے بھرنے والی خوش گمانی یہ ہوئی سوکھ گیا جب دریا ریت سے اب مری کشتی ہے ابھرنے والی خوشبوؤں کے نئے جھونکے ہیں ہر اک دھڑکن میں کون سی رت ہے مرے دل میں ٹھہرنے والی کچھ پرندے ہیں مگن موسمی پروازوں میں ایک آندھی ہے پر و بال ...