Ambar Bahraichi

عنبر بہرائچی

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

Well-known Sanskrit scholar, Sahitya Academy award winner.

عنبر بہرائچی کی غزل

    اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی

    اب قبیلے کی روایت ہے بکھرنے والی ہر نظر خود میں کوئی شہر ہے بھرنے والی خوش گمانی یہ ہوئی سوکھ گیا جب دریا ریت سے اب مری کشتی ہے ابھرنے والی خوشبوؤں کے نئے جھونکے ہیں ہر اک دھڑکن میں کون سی رت ہے مرے دل میں ٹھہرنے والی کچھ پرندے ہیں مگن موسمی پروازوں میں ایک آندھی ہے پر و بال ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

    آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا میرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا دل کی بانہوں میں سجاتے رہے آہوں کی دھنک ذہن کو ہم نے رہ ...

    مزید پڑھیے

    چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں

    چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں ہاتھوں میں سورج لے کر کیوں پھرتے ہیں اس بستی میں اب دیدہ ور کتنے ہیں قدروں کی شب ریزی پر حیرانی کیوں ذہنوں میں اب کالے سورج پلتے ہیں ہر بھرے جنگل کٹ کر اب شہر ہوئے بنجارے کی آنکھوں میں سناٹے ہیں پھولوں والے ...

    مزید پڑھیے

    شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی

    شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی آنکھوں میں وقت صبح مگر دھول بھر گئی پچھلی رتوں میں سارے شجر بارور تو تھے اب کے ہر ایک شاخ مگر بے ثمر گئی ہم بھی بڑھے تھے وادئ اظہار میں مگر لہجے کے انتشار سے آواز مر گئی تجھ پھول کے حصار میں اک لطف ہے عجب چھو کر جسے ہوائے طرب معتبر گئی دل میں ...

    مزید پڑھیے

    مرے چہرے پہ جو آنسو گرا تھا

    مرے چہرے پہ جو آنسو گرا تھا نہ جانے کتنے شعلوں میں جلا تھا ہمارے کان بہرے ہو گئے تھے ادھر وہ داستاں گو ہنس رہا تھا اندھیری رات سناٹے کا عالم ندی کے پار اک لپکا جگا تھا بہت آزار تھے رستے میں لیکن لہو میں پھول موسم ہنس رہا تھا ہوائے گرم یوں دل میں چلی تھی مری آنکھوں میں ساون بس ...

    مزید پڑھیے

    گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں

    گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں ذہن میں اک دھندلے پیکر سے الجھا ہوں پیس رہا ہے دل کو اک وزنی پتھر دوب کو بانہوں میں بھر کر میں ہنستا ہوں تیرے ہاتھوں نے مجھ میں سب رنگ بھرے لیکن ہر پل یہ احساس ادھورا ہوں دھوپ کبھی چمکے گی اس امید پہ میں برف کے دریا میں صدیوں سے لیٹا ہوں اس ...

    مزید پڑھیے

    گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

    گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ ...

    مزید پڑھیے

    جگمگاتی روشنی کے پار کیا تھا دیکھتے

    جگمگاتی روشنی کے پار کیا تھا دیکھتے دھول کا طوفاں اندھیرے بو رہا تھا دیکھتے سبز ٹہنی پر مگن تھی فاختہ گاتی ہوئی ایک شکرہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا دیکھتے ہم اندھیرے ٹاپوؤں میں زندگی کرتے رہے چاندنی کے دیس میں کیا ہو رہا تھا دیکھتے جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں سوہنی کے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2