Ambar Bahraichi

عنبر بہرائچی

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

Well-known Sanskrit scholar, Sahitya Academy award winner.

عنبر بہرائچی کی غزل

    دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا

    دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا صرف وہی اپنے گھر کا سرمایہ تھا کھڑے ہوئے تھے پیڑ جڑوں سے کٹ کر بھی تیز ہوا کا جھونکا آنے والا تھا اسی ندی میں اس کے بچے ڈوب گئے اسی ندی کا پانی اس کا پینا تھا سبز قبائیں روز لٹاتا تھا لیکن خود اس کے تن پر بوسیدہ کپڑا تھا باہر سارے میداں جیت چکا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی

    ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی جلووں کی انا توڑ گئی ایک ہی پل میں کچنار سی بجلی میرے سینے میں اڑی تھی پیتا رہا دریا کے تموج کو شناور ہونٹوں پہ ندی کے بھی عجب تشنہ لبی تھی خوش رنگ معانی کے تعاقب میں رہا میں خط لب لعلیں کی ہر اک موج خفی ...

    مزید پڑھیے

    وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا

    وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا مرے اندر بھی لاوا بھر گیا تھا ہے دونوں سمت ویرانی کا عالم اسی رستے سے وہ لشکر گیا تھا گزاری تھی بھنور میں اس نے لیکن وہ مانجھی ساحلوں سے ڈر گیا تھا قلندر مطمئن تھا جھونپڑے میں عبث اس کے لیے محضر گیا تھا نہ جانے کیسی آہٹ تھی فضا میں وہ دن ڈھلتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا

    گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا سونے چاندی کا ہر منظر خاک ہوا نہر کنارے ایک سمندر پیاسا ہے ڈھلتے ہوئے سورج کا سینہ چاک ہوا اک شفاف طبیعت والا صحرائی شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا شب اجلی دستاریں کیا سر گرم ہوئیں بھور سمے سارا منظر نمناک ہوا وہ تو اجالوں جیسا تھا اس کی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں

    میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں نہ جانے کون سے جادو کے ہاتھوں میں کھلونا ہوں سفر یہ پانیوں کا جب مجھے بے آب کرتا ہے میں دریا کی روپہلی ریت کو بستر بناتا ہوں سوالوں کے کئی پتھر اٹھائے لوگ بیٹھے ہیں میں اپنا ننھا بچہ قبر میں دفنا کے لوٹا ہوں نہ جانے کس فضا میں کھو گیا ...

    مزید پڑھیے

    جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

    جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی پھر برف کے صحرا میں ٹھہرنا تھا ہمیں بھی میعار نوازی میں کہاں اس کو سکوں تھا اس شوخ کی نظروں سے اترنا تھا ہمیں بھی جاں بخش تھا پل بھر کے لیے لمس کسی کا پھر کرب کے دریا میں اترنا تھا ہمیں بھی یاروں کی نظر ہی میں نہ تھے پنکھ ہمارے خود اپنی ...

    مزید پڑھیے

    ہر لمحہ سیرابی کی ارزانی ہے

    ہر لمحہ سیرابی کی ارزانی ہے مٹی کے کوزے میں ٹھنڈا پانی ہے چپکے چپکے روتا ہے تنہائی میں وہ جو شہر کے ہر میلے کا بانی ہے ندی کنارے شہر پناہیں بالوں کی ساون کی بوچھاریں ہیں طغیانی ہے باہر دھوپ سمندر سرخ بگولے بھی اندر ہر خلیے میں رت برفانی ہے اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں نہ ہوں شاد کہ ہم راہ گزر میں ہیں ابھی

    کیوں نہ ہوں شاد کہ ہم راہ گزر میں ہیں ابھی دشت بے سبز میں اور دھوپ نگر میں ہیں ابھی سرخ آذر ہی مرے زخموں پہ نہ ہو یوں مسرور کئی شہپر مرے ٹوٹے ہوئے پر میں ہیں ابھی ان دھندلکوں کی ہر اک چال تو شاطر ہے مگر نقرئی نقش مرے دست ہنر میں ہیں ابھی عمر بھر میں تو رہا خانہ بدوشی میں ادھر کچھ ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف اس کے سنہرے لفظ ہیں پھیلے ہوئے

    ہر طرف اس کے سنہرے لفظ ہیں پھیلے ہوئے اور ہم کاجل کی اک تحریر میں ڈوبے ہوئے چاندنی کے شہر میں ہم راہ تھا وہ بھی مگر دور تک خاموشیوں کے ساز تھے بجتے ہوئے ہنس رہا تھا وہ ہری رت کی سہانی چھاؤں میں دفعتاً ہر اک شجر کے پیرہن میلے ہوئے آج اک معصوم بچی کی زباں کھینچی گئی میری بستی میں ...

    مزید پڑھیے

    بریدہ بازوؤں میں وہ پرند لالہ بار تھا

    بریدہ بازوؤں میں وہ پرند لالہ بار تھا شکاریوں کے غول میں عجیب انتشار تھا ہرے پھلوں کو توڑتی ہوئی ہوا گزر گئی بجھی بجھی فضا میں ہر درخت سوگوار تھا سفر کا آخری پڑاؤ آ گیا تھا اور میں جو ہم سفر بچھڑ رہے تھے ان پہ اشک بار تھا گئے تھے ہم بھی بحر کی تہوں میں جھومتے ہوئے ہر ایک سیپ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2