Ambar Bahraichi

عنبر بہرائچی

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

Well-known Sanskrit scholar, Sahitya Academy award winner.

عنبر بہرائچی کی نظم

    یدھشٹھر

    ابھی چیڑ کے جنگلوں سے گزرنا بہت جاں فزا ہے کئی میل کے بعد برفیلے تودوں کا صحرا ملے گا جہاں سرد پروائیوں کے تھپیڑے تھرکتے ملیں گے عمودی ڈھلانوں کا اک سلسلہ بھی ملے گا اچانک جسے پار کرنے کی دھن میں تمہیں اپنے سب ساتھیوں کو گلانا پڑے گا حسیں دروپدی اور تمہارے جری بھائیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    سوکھی ٹہنی پر ہریل

    ہم چشموں کے غول مگن ہیں شاخوں پر خوش رفتار ہوائیں پنکھے جھلتی ہیں گولر کے کچے پھل بھی ہر جانب ہیں میٹھے پانی والی جھیل ہے پہلو میں موسم کی شطرنجی چالیں عنقا ہیں کوئی شکاری بھی اس سمت نہیں آتا ہرے بھرے جنگل کی مشفق بانہوں میں رات گئے جانے کیا برسا ہے دل پر الگ تھلگ برگد کی سوکھی ...

    مزید پڑھیے

    دھنک

    ایک کتا جھاڑیوں میں لا وارث نو مولود بچے کی حفاظت کر رہا تھا ایک ماں اپنے ننھے بچے کے گال پر کاجل کا ٹیکہ لگا رہی تھی ایک معصوم بچے کی انگلی پکڑ کر ایک بوڑھا اور نا بینا شخص سڑک پار کر رہا تھا رامش و رنگ میں ڈوبی ہوئی برات میں ہنڈیوں کو اپنے سروں پر مزدور اٹھائے ہوئے تھے میری ...

    مزید پڑھیے

    گلابی چونچ

    گلابی چونچ میں کیڑے لیے اڑتی ہے گوریا جدھر اک آشیاں میں اس کے بچوں نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں مگر ہیں بھوک سے بے کل مچھیرے صبح کی دھندھلی رداؤں میں پرانے چھپروں کی کوکھ سے شانوں پہ رکھ کر جال نکلے ہیں وہیں پر کھانستے ہیں چند محنت کش الاؤ کے کنارے بیڑیاں پی کر فلک پیما عمارت کے ...

    مزید پڑھیے

    انبساط ازلی

    اونچی نیچی دوب پر لہراتا ہوا کالا ناگ جھیل کے بانہوں سے پھوٹتا ہوا جوالامکھی رنگ برنگے پنچھی کو پنجوں میں دبائے ہوئے باز چٹانوں کے پیچھے مردہ جانور کی صاف و شفاف ٹھٹھری پر بھاگتے ہوئے سیاہ چوہوں کی قطار چاندنی رات میں مچھلی پر جھپٹتا ہوا اودبلاؤ پتنگے کو پکڑنے کے لیے لپکتی ...

    مزید پڑھیے

    ہم خواب زدہ

    ہم خواب زدہ پیلے موسم کے انگاروں سے جلے ہوئے پلکوں میں رنگ برنگے خاکے بھرے ہوئے سانسوں کو روکے ہوئے مسلسل خوابیدہ ہیں دیکھ رہے ہیں خود کو جنگل اور پہاڑوں کے شانوں پر اڑتے ہوئے آگ اگلتے جھرنوں کی بانہوں میں نغمے گاتے ہوئے خوش پیکر روپوش پرندوں کے ہمراہ فضا کی وسعت کو لرزیدہ کرتے ...

    مزید پڑھیے

    ببول کے درخت سے کہو

    ببول کے درخت سے کہو ابھی مشام جاں میں ہر سنگھار کی شگفتگی بڑے ہی انہماک سے بہار پاش ہے یہاں جو مڑ کے دیکھتا ہوں ادھ جلے گلاب کا بدن شہادتوں کے رمز پر سنگھار بھی لٹا گیا جو مڑ کے دیکھتا ہوں فاختہ کا احمریں لہو جبین جور کی سبھی رعونتیں مٹا گیا مرے خلاف سازشوں کا یہ مہیب سلسلہ مری ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے

    مجھے خبر ہے یہ آبنوسی چٹان جو دوب کے سبز تختے پہ آ گری ہے نئی سبک نرم پتیوں کا سنگھار پی کر سنہرے لمحوں کی سانس میں پھانس بن کر اٹک گئی ہے مجھے یقیں ہے کہ موسموں کے طلسم یہ تیرگی اڑا کر اسی سلگتی چٹان پر دوب کی سبز زلفیں بکھیر دیں گے مجھے یقیں ہے مرے کٹے بازوؤں کی طاقت مری رگوں سے ...

    مزید پڑھیے

    نیلسن منڈیلا

    یہ بر اعظم کی ساری بلائیں سنا ہے کہ اب منتشر ہو رہی ہیں فلک بوس تہذیب کے کیکٹس جھونپڑوں کی روایات کو ڈس رہے ہیں مگر کم نہیں یہ کہ اپنی زمیں اور اپنی فضا میں سیہ پیکروں کی دو دھاری انا اور آہن ارادوں نے اپنے لیے اب نئے تیوروں کے اجالے تراشے اندھیری زمینوں سے میرے نکالے خط استوا کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک ریاضت یہ بھی

    وہی دریا کنارے روز اپنی بانس کی بنسی لیے بیٹھا ہوا وہ شخص کتنی بے نیازی سے ہر اک لمحہ کو اپنی خوش دلی سے داد دیتا ہے کہ جس کے روئے روشن پر قناعت مورچھل جھلتی ہوئی موتی لٹاتی ہے سحر تا شام لہروں سے وہ اپنی بات کہتا ہے ہواؤں کی مدھر سرگوشیوں پر کھلکھلاتا ہے پرندوں کے سہانے چہچہوں پر ...

    مزید پڑھیے