مرے چہرے پہ جو آنسو گرا تھا
مرے چہرے پہ جو آنسو گرا تھا
نہ جانے کتنے شعلوں میں جلا تھا
ہمارے کان بہرے ہو گئے تھے
ادھر وہ داستاں گو ہنس رہا تھا
اندھیری رات سناٹے کا عالم
ندی کے پار اک لپکا جگا تھا
بہت آزار تھے رستے میں لیکن
لہو میں پھول موسم ہنس رہا تھا
ہوائے گرم یوں دل میں چلی تھی
مری آنکھوں میں ساون بس گیا تھا
اندھیرے دشت سے نکلے کہ دیکھا
سوا نیزے پہ سورج آ چکا تھا
لبوں پہ تھی مرے صبح تبسم
مرے باطن میں کوئی رو رہا تھا
بہت دن بعد کھل کر مل رہے تھے
مرے بچوں کو جانے کیا ہوا تھا
بہت مشتاق تھا شہر خموشاں
کہ بستی میں فقط عنبرؔ بچا تھا