پُرسہ
خدا کو لکھے گئے خط میں میں نے اپنے دکھوں کی تفصیل نہیں لکھی کیوں کہ خدا ہر شے سے بے نیاز دنیا کی بساط پر نت نئے کھیل کھیل رہا ہے اور تنہائی کا دکھ جھیل رہا ہے
پاکستان کی نئی نسل کے اہم شاعر، سہ ماہی ادبی رسالے ’نظم نو ‘ کےمدیر
A prominent new generation poet from Pakistan, editor of literary quarterly 'Nazm-e-Nau'
خدا کو لکھے گئے خط میں میں نے اپنے دکھوں کی تفصیل نہیں لکھی کیوں کہ خدا ہر شے سے بے نیاز دنیا کی بساط پر نت نئے کھیل کھیل رہا ہے اور تنہائی کا دکھ جھیل رہا ہے
خوابوں کی ترسیل کا کام ایک مدت سے بلا ناغہ جاری ہے میں ان لوگوں کے لیے خواب دیکھتا ہوں جو خود خواب نہیں دیکھ سکتے میں خواب دیکھتا ہوں اور انہیں کاغذ پر لکھتا ہوں کبھی آدھا کبھی پورا اور کبھی پورے سے بھی زیادہ کبھی کبھی تو خواب اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ کاغذ سے بہہ کر زمین پر یا ...
آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی لڑکی کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ اس کی جوانی پستیوں کے سفر پر روانہ ہو چکی ہے آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی لڑکی کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ جب زمین پر نیلے گنبد مسمار ہوتے ہیں تو منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کی رفتار بہت مدھم ہو جاتی ہے
میں تمہیں اپنی قبر کی مٹی سے کھلونے بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا تم اگر چاہو تو اس مٹی سے کوئی گیت بن سکتی ہو یا کوئی دیوار چن سکتی ہو چنی ہوئی دیوار میں در میرے نالوں کی ذمہ داری ہے یہ تو میں چنی ہوئی دیوار کی بات کر رہا ہوں یہ آسمان بھی میری دسترس سے باہر نہیں ہے
تیری تصویر بناتے ہوئے میں نے نظم مکمل کر لی ہے اور خود کو ادھورا چھوڑ دیا ہے تم چاہو تو مجھے مکمل کر سکتی ہو اپنی آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے اپنے بال سنوارتے ہوئے یا اس وقت جب کمرے میں کوئی نہ ہو اور آئینہ تمہارے حق میں بیان دینے سے انکار کر دے
سورج ہر روز میری آنکھوں میں بھری ہوئی اور شاید مری ہوئی نیند کو دیکھ کر اپنے دن کا آغاز کرتا ہے میں گھر سے دفتر جاتی ہوئی سڑک پر رینگتا ہوا آنے والی نسلوں پر احسان کرتا ہوں میں دفتر اپنی مرضی سے جاتا ہوں لیکن دفتر میں میری مرضی کا کام نہیں ہوتا میں کاغذ پر خواب اور دکھ ایک ساتھ ...
تمہیں میرا سگریٹ پینا برا لگتا ہے اور مجھے تمہارا راہ چلتی لڑکیوں پر جملے کسنا ہماری دوستی مصلحت کی سڑک پر چلتے ہوئے ضبط کے آخری موڑ تک آ گئی ہے اب ہمیں مسکراہٹوں کا تبادلہ کر لینا چاہیئے ہو سکتا ہے آنے والا وقت اس تکلف کا روادار نہ ہو
تمہارے دکھ اک کاغذ پر لکھ کر اس کی ایک کشتی بنائی جا سکتی ہے اور اس کشتی پر آنے والی دو چار صدیوں کا سفر کیا جا سکتا ہے تمہیں یاد ہی ہوگا آج سے کچھ صدیاں پہلے جب دربار میں بیٹھے ہوئے تم نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں تھیں میں نے اپنے بھائیوں پر اعتبار کیا تھا اعتبار تو خیر میں اب بھی کر ...
وہ کسی بھی حال میں اپنے ہونٹوں پر سرخی لگانا نہیں بھولتی اور میں کنگھی کرنا آج پھیلی ہوئی سرخی اور بکھرے ہوئے بال عجیب ہی منظر پیش کر رہے ہیں اور پس منظر میں اذان ہو رہی ہے
تم نے ایک گدھ کی تصویر کھینچی جو ایک بھوکے بچے کے مرنے کا منتظر تھا اور خودکشی کر لی میں نے ایک بھوکے بچے کو مرے ہوئے گدھ کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھ لیا ہے مجھے کیا کرنا چاہیئے