نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے چونکے ہیں ہم اب سرحد عصیاں سے گزر کے آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے یادوں کے جواں قافلے آتے ہی رہیں گے سرما کے اسی برگ پرافشاں سے گزر کے کانٹوں کو بھی اب باد صبا چھیڑ رہی ہے پھولوں کے حسیں چاک گریباں سے گزر ...