Ali Jawwad Zaidi

علی جواد زیدی

معروف شاعر اور نقاد، اپنی تنقیدی کتاب ’دو ادبی اسکول‘ کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

Well-known poet and critic known for his book 'Do Adabi School'

علی جواد زیدی کی غزل

    طے کر چکے یہ زندگی جاوداں سے ہم

    طے کر چکے یہ زندگی جاوداں سے ہم آگے بڑھیں گے اور اٹھے ہیں جہاں سے ہم کس کو صدا دیں کس سے کہیں ساتھ لے چلو پیچھے رہے غبار رہ کارواں سے ہم دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم چونکا دیا قفس نے ہمیں گہری نیند سے وابستہ ہو چلے تھے بہت آشیاں سے ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی

    ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی تاریکی حیات یکایک ابھر گئی نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی اظہار التفات کے بعد ان کی بے رخی اک رنگ اور نقش تمنا میں بھر گئی ذوق جنوں و جذبۂ بیباک کیا ملے ویران ہو کے بھی مری دنیا سنور گئی اب دور کارسازی وحشت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    برہم زن شیرازۂ ایام ہمیں ہیں

    برہم زن شیرازۂ ایام ہمیں ہیں اے درد محبت ترا انجام ہمیں ہیں اس قافلۂ شوق میں یہ وہم ہے سب کو آوارہ و سر گشتہ و ناکام ہمیں ہیں ہوں گے کئی گردن زدنی اور بھی لیکن اس شہر نگاراں میں تو بدنام ہمیں ہیں ہم دھوپ میں تپتے تو پنپ جاتے مگر اب دریوزہ گر مہر لب بام ہمیں ہیں کیا آن تھی ...

    مزید پڑھیے

    کتنے دل ٹوٹے ہیں دنیا کا خبر ہونے تک

    کتنے دل ٹوٹے ہیں دنیا کا خبر ہونے تک کتنے سر پھوٹے ہیں دیوار میں در ہونے تک ایک کانٹا جو نکلتا ہے تو سو چبھتے ہیں امن تھا حوصلۂ فکر و نظر ہونے تک ہم نے اپنے سے بھی سو بار محبت کی ہے ہاں مگر دل میں کسی شوخ کا گھر ہونے تک اب کہیں رقص جنوں ہے تو کہیں نغمۂ خوں کتنی سونی تھی فضا زیر و ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے

    آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے نیچی نگاہ اٹھی فتنے نئے جگا کے میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسن پا کے دیکھو تو میری جانب اک بار مسکرا کے دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اٹھا کے جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر ...

    مزید پڑھیے

    جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں

    جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں مگر جن کو سمجھنا چاہیئے تھا کم سمجھتے ہیں ذرا میرے جنوں کی کاوش تعمیر تو دیکھیں جو بزم زندگی کو درہم و برہم سمجھتے ہیں ان آنکھوں میں نہیں نشتر خود اپنے دل میں پنہاں ہے اب اتنی بات تو کچھ ہم بھی اے ہمدم سمجھتے ہیں یہ ان کی مہربانی ہے یہ ان ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا

    ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا نفس نفس ہے مہاجر نظر نظر تنہا یہ میرا عکس ہے آئینے میں کہ دشمن ہے اداس تشنۂ ستم دیدہ بے خبر تنہا یہ قتل گاہ بھی ہے بال پن کا آنگن بھی بھٹک رہی ہے جہاں چشم معتبر تنہا برا نہ مان مرے ہم سفر خدا کے لئے چلوں گا میں بھی اسی راہ پر مگر تنہا نہ جانے ...

    مزید پڑھیے

    جنوں سے راہ خرد میں بھی کام لینا تھا

    جنوں سے راہ خرد میں بھی کام لینا تھا ہر ایک خار سے اذن خرام لینا تھا فراز دار پہ دامن کسی کا تھام لیا جنون شوق کو بھی انتقام لینا تھا ہزار بار نتائج سے ہو کے بے پروا اسی کا نام لیا جس کا نام لینا تھا علاج تشنہ لبی سہل تھا مگر ساقی جو دست غیر میں ہے کب وہ جام لینا تھا جنوں کی راہ ...

    مزید پڑھیے

    شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں

    شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں ہاں مگر اشک جب امڈے تھے چھپائے تو نہیں تیری محفل کے بھی آداب کہ دل ڈرتا ہے میری آنکھوں نے در اشک لٹائے تو نہیں چھان لی خاک بیابانوں کی ویرانوں کی پھر بھی انداز جنوں عقل نے پائے تو نہیں لاکھ پر وحشت و پر ہول سہی شام فراق ہم نے گھبرا کے دیے ...

    مزید پڑھیے

    گو وسیع صحرا میں اک حقیر ذرہ ہوں

    گو وسیع صحرا میں اک حقیر ذرہ ہوں رہروی میں صرصر ہوں رقص میں بگولا ہوں ہر سمدر منتھن سے زہر ہی نکلتا ہے میں یہ زہر جیون کا ہنس کے پی بھی سکتا ہوں یہ بھری پری دھرتی اک اننت میلا ہے اور سارے میلے میں جیسے میں اکیلا ہوں یوں تو پھول پھبتا ہے ہر حسین جوڑے پر جس نے چن لیا مجھ کو میں اسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4