Akhtar Shumar

اختر شمار

اختر شمار کی غزل

    اس کی چاہ میں نام نہیں آنے والا

    اس کی چاہ میں نام نہیں آنے والا اب میرا انجام نہیں آنے والا حسن سے کام پڑا ہے آخری سانسوں میں اور وہ کسی کے کام نہیں آنے والا میری صدا پر وہ نزدیک تو آئے گا لیکن زیر دام نہیں آنے والا ایک جھلک سے پیاس کا روگ بڑھے گا اور اس سے مجھے آرام نہیں آنے والا عشق کے نام پہ تیرا رنگ نہ ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا

    ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا اور اس کے بعد فقط آندھیوں کو آنا تھا میں گھر کو پھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ کہ تیری راہ میں پہلا قدم اٹھانا تھا وگرنہ کون اٹھاتا یہ جسم و جاں کے عذاب یہ زندگی تو محبت کا اک بہانہ تھا یہ کون شخص مجھے کرچیوں میں بانٹ گیا یہ آئنہ تو مرا آخری ...

    مزید پڑھیے

    حصار قریۂ آزار سے نکلتے ہوئے

    حصار قریۂ آزار سے نکلتے ہوئے یہ دل ملول تھا آزار سے نکلتے ہوئے بڑی ہی دیر تلک دھوپ مجھ کو چھو نہ سکی تمہارے سایۂ دیوار سے نکلتے ہوئے کہ پھر سے تخت کو آنا تھا میرے قدموں میں میں پر یقین تھا دربار سے نکلتے ہوئے شعاع نور کے پھوٹے سے جاں لرزتی تھی تمہاری گرمئ رخسار سے نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں

    اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ ابھی ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ لے گیا ہے میرا آسمان سے کون

    ستارہ لے گیا ہے میرا آسمان سے کون اتر رہا ہے شمارؔ آج میرے دھیان سے کون ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون لہو میں آگ لگا کر یہ کون ہنستا ہے یہ انتقام سا لیتا ہے روح و جان سے کون یہ دار چوم کے مسکا رہا ہے کون ادھر گزر رہا ہے تمہارے یہ امتحان سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2