Akhtar Hoshiyarpuri

اختر ہوشیارپوری

معروف شاعر،اپنے نعتیہ کلام کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، حکومت پاکستان کے اعزاز’ تمغۂ امتیاز ‘سے سرفراز

Well-known poet, also known for his poems written in the veneration of the prophet; decorated with Tamgha-i-Imtiyaz from Pakistan government

اختر ہوشیارپوری کی غزل

    خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے

    خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے روز اک تازہ کانچ کا برتن ہاتھ سے گر کر ٹوٹتا ہے مکڑی نے دروازے پہ جالے دور تلک بن رکھے ہیں پھر بھی کوئی گزرے دنوں کی اوٹ سے اندر جھانکتا ہے شور سا اٹھتا رہتا ہے دیواریں بولتی رہتی ہیں شام ابھی تک آ نہیں پاتی کوئی کھلونے توڑتا ہے اول شب ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ قرض حرف وفا عمر بھر رہا

    ہونٹوں پہ قرض حرف وفا عمر بھر رہا مقروض تھا سو چپ کی صدا عمر بھر رہا کچھ درگزر کی ان کو بھی عادت نہ تھی کبھی کچھ میں بھی اپنی ضد پہ اڑا عمر بھر رہا وہ تجربے ہوئے کہ مرے خوں کی خیر ہو یارو میں اپنے گھر سے جدا عمر بھر رہا موسم کا حبس شب کی سیاہی فصیل شہر مجرم تھا سر جھکائے کھڑا عمر ...

    مزید پڑھیے

    یک بیک موسم کی تبدیلی قیامت ڈھا گئی

    یک بیک موسم کی تبدیلی قیامت ڈھا گئی رک کے سستانا تھا جب مجھ کو کڑی دھوپ آ گئی دن ڈھلے کس کو ہے تجدید سفر کا حوصلہ آتی جاتی رہ گزر ناحق مجھے بہکا گئی بوئے گل موج ہوا ہے اور ہوا کیوں کر رکے اب کے مٹی ہی کی خوشبو میرا گھر مہکا گئی وہ ہوائیں ہیں اڑے جاتے ہیں پیراہن یہاں اے عروس زیست ...

    مزید پڑھیے

    منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے

    منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے طاقچوں پر ...

    مزید پڑھیے

    پھر یہ ہوا کہ لوگ دریچوں سے ہٹ گئے

    پھر یہ ہوا کہ لوگ دریچوں سے ہٹ گئے لیکن وہ گرد تھی کہ در و بام اٹ گئے کچھ لوگ جھانکنے لگے دیوار شہر سے کچھ لوگ اپنے خون کے اندر سمٹ گئے وہ پیڑ تو نہیں تھا کہ اپنی جگہ رہے ہم شاخ تو نہیں تھے مگر پھر بھی کٹ گئے پر ہول جنگلوں میں ہوا چیختی پھری واپس گھروں کو کیوں نہ مسافر پلٹ ...

    مزید پڑھیے

    درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو

    درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو وہ نظر راز ہے اس راز کا چرچا نہ کرو وسعت دشت میں دیوانے بھٹک جاتے ہیں دوستو آہوئے رم خوردہ کا پیچھا نہ کرو تم مقدر کا ستارہ ہو مرے پاس رہو تم جبین شب نمناک پہ ابھرا نہ کرو پس دیوار بھی دیوار کا عالم ہوگا تم یوں ہی روزن دیوار سے جھانکا نہ کرو گھر ...

    مزید پڑھیے

    اک نور تھا کہ پچھلے پہر ہم سفر ہوا

    اک نور تھا کہ پچھلے پہر ہم سفر ہوا مجھ کو قبا کا چاک ہی چاک سحر ہوا سیلاب امنڈ کے شہر کی گلیوں میں آ گئے لیکن غریب شہر کا دامن نہ تر ہوا زندان آرزو میں نظر بے بصر رہی دیوار در ہوئی تو کرن کا گزر ہوا وہ آندھیاں چلی ہیں کہ اشجار اکھڑ گئے دکان شیشہ گر پہ نہ پھر بھی اثر ہوا اب کون ...

    مزید پڑھیے

    رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

    رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے سر منظر مگر اک بولتی تصویر بھی ہے میرے شانوں پہ فرشتوں کا بھی ہے بار گراں اور مرے سامنے اک ملبے کی تعمیر بھی ہے زائچہ اپنا جو دیکھا ہے تو سر یاد آیا جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح ان کتابوں ...

    مزید پڑھیے

    نہ جب کوئی شریک ذات ہوگا

    نہ جب کوئی شریک ذات ہوگا مرا ہم زاد میرے ساتھ ہوگا گھروں کے بند دروازوں میں روشن وہی اک زخم احساسات ہوگا نہ یوں دہلیز تک آؤ کہ باہر گلی میں فتنۂ ذرات ہوگا کریدے جاؤ یوں ہی راکھ دل کی کہیں تو شعلۂ جذبات ہوگا دریچے یوں تو کھل سکتے نہیں تھے ہواؤں میں کسی کا ہات ہوگا کتابوں میں ...

    مزید پڑھیے

    در و دیوار پہ اک سایہ پڑا ہے دیکھو

    در و دیوار پہ اک سایہ پڑا ہے دیکھو میرے رستے میں کوئی جیسے کھڑا ہے دیکھو ذرۂ خاک کو سر پر لئے پھرتی ہے ہوا اور پتھر کہ زمیں میں ہی گڑا ہے دیکھو اس قدر بھیڑ ہے رستے میں کہ چلنا ہے محال اور بادل کہ ابھی سر پہ کھڑا ہے دیکھو اپنی ہی ذات کے سائے میں چھپا بیٹھا ہوں کہ مرا سایہ بھی تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5