Akhlaque Bandvi

اخلاق بندوی

اخلاق بندوی کی غزل

    روز روشن کو جو نسبت ہے سیہ رات کے ساتھ

    روز روشن کو جو نسبت ہے سیہ رات کے ساتھ اس نے رشتہ وہی رکھا ہے مری ذات کے ساتھ کچھ نہ تھا بخت میں ناکام محبت کے سوا زندگی کاٹ دی میں نے اسی سوغات کے ساتھ شب کی شب ایک چراغاں کا سماں رہتا ہے شام آ جاتی ہے جب تیرے خیالات کے ساتھ ابر غم دل سے اٹھے از سر مژگاں برسے چشم گریاں کو عجب ربط ...

    مزید پڑھیے

    جستجو نے تری ہر چند تھکا رکھا ہے

    جستجو نے تری ہر چند تھکا رکھا ہے پھر بھی کیا غم کہ اسی میں تو مزہ رکھا ہے کچھ تو اپنی بھی طبیعت ہے گریزاں ان سے کچھ مزاج ان کا بھی بر دوش ہوا رکھا ہے کیا تجھے علم نہیں تیری رضا کی خاطر میں نے کس کس کو زمانے میں خفا رکھا ہے جب نظر اٹھی رخ یار پہ جا کر ٹھہری جیسے آنکھوں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے

    مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے سن کے ٹپکے گا تری آنکھوں سے خوں رہنے دے فصل گل دشت خرد میں ہے اگرچہ موجود مجھ کو پا بستۂ زنجیر جنوں رہنے دے تو کرم مجھ پہ کرے گا تو جتائے گا ضرور حال جو میرا زبوں ہے تو زبوں رہنے دے سادگی سی کوئی زینت نہیں ہوتی جاناں اپنی ان شوخ اداؤں کا فسوں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

    کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں تو پھر مہینوں مسلسل عذاب جاگتے ہیں کسی کے لمس کی تاثیر ہے کہ برسوں بعد مری کتابوں میں اب بھی گلاب جاگتے ہیں برائی کچھ تو یقیناً ہے بے حجابی میں مگر وہ فتنے جو زیر نقاب جاگتے ہیں ستم شعارو ہمارا تم امتحان نہ لو ہمارے صبر سے صد انقلاب ...

    مزید پڑھیے

    چرخ بھی چھو لیں تو جانا ہے اسی مٹی میں

    چرخ بھی چھو لیں تو جانا ہے اسی مٹی میں مستقل اپنا ٹھکانا ہے اسی مٹی میں جن کے دامن پہ کبھی چاند ستارے چمکے دفن ان کا بھی فسانہ ہے اسی مٹی میں بے عمل ہاتھ لگائے بھی تو خالی جائے ہاں جفا کش کا خزانہ ہے اسی مٹی میں اس طرح چل کہ یہ پامال نہ ہونے پائے بے خبر آب ہے دانہ ہے اسی مٹی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2