روز روشن کو جو نسبت ہے سیہ رات کے ساتھ
روز روشن کو جو نسبت ہے سیہ رات کے ساتھ
اس نے رشتہ وہی رکھا ہے مری ذات کے ساتھ
کچھ نہ تھا بخت میں ناکام محبت کے سوا
زندگی کاٹ دی میں نے اسی سوغات کے ساتھ
شب کی شب ایک چراغاں کا سماں رہتا ہے
شام آ جاتی ہے جب تیرے خیالات کے ساتھ
ابر غم دل سے اٹھے از سر مژگاں برسے
چشم گریاں کو عجب ربط ہے برسات کے ساتھ
کرب یادوں کا رہا درد بھلانے کا رہا
رنج کیا کیا نہ سہے گردش حالات کے ساتھ
شیخ جی آپ نے در بندگی سجدے ہی گنے
دل کی تطہیر بھی لازم تھی عبادات کے ساتھ
مطربا کون سنے ہے تری چیخوں کی صدا
لب لعلیں پہ تھرکتے ہوئے نغمات کے ساتھ
اور تو کام سبھی ہو گئے پورے اخلاقؔ
دل لگی رہ گئی اک مرگ مفاجات کے ساتھ