Akbar Sharid

اکبر شارد

  • 1948

اکبر شارد کی غزل

    بدلیں گے حالات کے تیور صبر کرو

    بدلیں گے حالات کے تیور صبر کرو معرکہ ہوگا ہر اک سر پر صبر کرو آج گلا اپنا ہے خنجر ان کا ہے اک دن بدلے گا یہ منظر صبر کرو دشمن میرے پیچھے چھپ کر بیٹھا ہے بول اٹھے گا اک اک پتھر صبر کرو حق تو حق ہے آخر غالب آئے گا باطل کا جھک جائے گا سر صبر کرو شافع محشر کی ہے یہ تعلیم ہمیں غصے کو ...

    مزید پڑھیے

    خوشی کے موقعے پر ان کی کمی اچھی نہیں لگتی

    خوشی کے موقعے پر ان کی کمی اچھی نہیں لگتی عزیزوں کے بنا کوئی خوشی اچھی نہیں لگتی عداوت دشمنی نفرت حسد انساں کی فطرت ہے مگر شدت کسی بھی بات کی اچھی نہیں لگتی کسی کے واسطے جب بد گمانی دل میں آ جائے تو اچھی بات بھی اس کی کبھی اچھی نہیں لگتی سلیم الطبع فطرت دی ہے قدرت نے جنہیں ان ...

    مزید پڑھیے

    رنج نہیں کوئی بھی اگر میں ٹوٹا ہوں (ردیف .. ے)

    رنج نہیں کوئی بھی اگر میں ٹوٹا ہوں بیوی بچے بھائی بہن میں بکھرا ہوں اندر اندر ٹوٹ رہا تھا روز وہ شخص کوئی پوچھے تو کہتا تھا اچھا ہوں رندوں سے بھی رسم و راہ رہی اپنی اہل ورع کی صحبت میں بھی رہتا ہوں سچ مچ بے بس ہیں یا بے حس ہیں ہم سب تم بھی سوچو میں بھی سوچا کرتا ہوں شاردؔ ایسی ...

    مزید پڑھیے

    رکھیں ہر بات میں ہم صاف نیت

    رکھیں ہر بات میں ہم صاف نیت گھروں میں آئے گی تب جا کے برکت عبادت ہے یقیناً یہ عبادت خدا کے بندوں سے کرنا محبت ہمارے نوجوانوں کو عطا کر خدایا جذبۂ شوق شہادت منافق دوستوں کے درمیاں ہوں مرے مالک مری کرنا حفاظت نہیں طالب کسی منصب کا شاردؔ نہ کوئی آرزوئے عز و شہرت

    مزید پڑھیے