رنج نہیں کوئی بھی اگر میں ٹوٹا ہوں (ردیف .. ے)

رنج نہیں کوئی بھی اگر میں ٹوٹا ہوں
بیوی بچے بھائی بہن میں بکھرا ہوں


اندر اندر ٹوٹ رہا تھا روز وہ شخص
کوئی پوچھے تو کہتا تھا اچھا ہوں


رندوں سے بھی رسم و راہ رہی اپنی
اہل ورع کی صحبت میں بھی رہتا ہوں


سچ مچ بے بس ہیں یا بے حس ہیں ہم سب
تم بھی سوچو میں بھی سوچا کرتا ہوں


شاردؔ ایسی بات ہے آخر کیا مجھ میں
آج بھی ان آنکھوں کا محور ہوتا ہے