اکبر حمیدی کی غزل

    ترا آنچل اشارے دے رہا ہے

    ترا آنچل اشارے دے رہا ہے فلک روشن ستارے دے رہا ہے ہوا سہلا رہی ہے اس کے تن کو وہ شعلہ اب شرارے دے رہا ہے کھلے ہیں پھول ہر سو جیسے کوئی ترا صدقہ اتارے دے رہا ہے گزرنے والے کب تھے ہجر کے دن مگر عاشق گزارے دے رہا ہے جنوبی ایشیا کو جیسے اکبرؔ یہ دن کوئی ادھارے دے رہا ہے

    مزید پڑھیے

    مجھے لکھو وہاں کیا ہو رہا ہے

    مجھے لکھو وہاں کیا ہو رہا ہے یہاں تو پھر تماشا ہو رہا ہے ہوا کے دوش پر ہے آشیانہ پرندہ تنکا تنکا ہو رہا ہے ابھی پرواز کی فرصت ہے کس کو ابھی تو دانہ دنکا ہو رہا ہے کوئی نادیدہ انگلی اٹھ رہی ہے مری جانب اشارہ ہو رہا ہے وہ اپنے ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں ہمارا شہر الٹا ہو رہا ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے بھائی

    دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے بھائی دشت بھی بے در و دیوار نہیں ہے بھائی ایسا بھی صدق و صفا کا نہیں دعویٰ ہم کو زندگی شیخ کی دستار نہیں ہے بھائی پاک بازوں کی یہ بستی ہے فرشتوں کا نگر کوئی اس شہر میں مے خوار نہیں ہے بھائی عشق کرنا ہے تو چھٹی نہیں کرنی کوئی عشق میں ایک بھی اتوار نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہیں ہم ادھر ہیں ستارا ہے جس طرف

    کہتے ہیں ہم ادھر ہیں ستارا ہے جس طرف میں جانتا ہوں ان کا اشارا ہے جس طرف سب چاہتے ہیں سطح سمندر پہ لکھے جائیں پر جاتے ہیں ادھر کو کنارا ہے جس طرف یہ کیا ضرور ہے یہاں عمریں گزار دیں اک حادثے نے ہم کو اتارا ہے جس طرف یہ آسمان آئنے کی شکل ہے کوئی ہم اس طرف ہیں اس کا نظارا ہے جس طرف

    مزید پڑھیے

    حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں

    حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں وہ آئیں گے نہیں آئیں گے ہم سجے ہوئے ہیں بڑا ہی خوشیوں بھرا ہنستا بستا گھر ہے مرا اسی لیے تو سبھی قمقمے جلے ہوئے ہیں وہ خود پسند ہے خود کو ہی دیکھنا چاہے سو اس کے چاروں طرف آئنے لگے ہوئے ہیں یہ کس حسیں کی سواری گزرنے والی ہے جو کائنات کے سب راستے ...

    مزید پڑھیے

    اک لمحے نے جیون دھارا روک لیا

    اک لمحے نے جیون دھارا روک لیا جیسے کسی قطرے نے دریا روک لیا کتنا مان گمان ہے دینے والے کو درد دیا ہے اور مداوا روک لیا دونوں عالم مل کے جس کو روکتے ہیں میں نے اس طوفان کو تنہا روک لیا کبھی کبھی تو مجھ کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے میرا حصہ روک لیا وہ تو سب کا دوست ہے میرا کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی میں ساغر زریں کھنک کھنک جائے

    ہنسی میں ساغر زریں کھنک کھنک جائے شباب اس کی صدا کا چھلک چھلک جائے دل و نظر میں بسی ہے وہ چاند سی صورت وہ دل کشی ہے کہ بالک ہمک ہمک جائے لباس میں ہے وہ طرز تپاک آرائش جو انگ چاہے چھپانا جھلک جھلک جائے قدم قدم تری رعنائیوں کے در وا ہوں روش روش ترا آنچل ڈھلک ڈھلک جائے نفس نفس ہو ...

    مزید پڑھیے

    نام اکبرؔ تو مرا ماں کی دعا نے رکھا

    نام اکبرؔ تو مرا ماں کی دعا نے رکھا ہاں بھرم اس کا مگر میرے خدا نے رکھا وہ بھی دن تھا کہ ترے آنے کا پیغام آیا تب مرے گھر میں قدم باد صبا نے رکھا کس طرح لوگوں نے مانگیں تھیں دعائیں اس کی کچھ لحاظ اس کا نہ بے مہر ہوا نے رکھا ایسے حالات میں اک روز نہ جی سکتے تھے ہم کو زندہ ترے پیمان ...

    مزید پڑھیے

    کہا تھا اس نے محبت کی آبرو رکھنا

    کہا تھا اس نے محبت کی آبرو رکھنا چبھے ہوں کتنے بھی کانٹے گلوں کی خو رکھنا دلوں کو توڑ نہ ڈالے تمہاری حق گوئی بجائے حرف کے آئینہ روبرو رکھنا جو وقت اہل وفا سے کبھی لہو مانگے تو سب سے پہلے لب تیغ پر گلو رکھنا خزاں سے ہار نہ جانا کسی بھی حالت میں نمو ملے نہ ملے خواہش نمو رکھنا برا ...

    مزید پڑھیے

    ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے

    ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے زندگی کتنی خوبصورت ہے جس طرح پھول کی گلستاں کو زندگی کو مری ضرورت ہے خاص مہماں ہیں آدم و حوا اک نئی دنیا کی مہورت ہے کہتی ہے کچھ زباں سے کہہ اکبرؔ اس طرح کاہے مجھ کو گھورت ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3