اکبر حمیدی کی غزل

    وہ جب نظریں ملا کر بولتے ہیں

    وہ جب نظریں ملا کر بولتے ہیں تو بت اللہ اکبر بولتے ہیں کبھی خاموش جو ہونے لگا ہوں تو وہ خوابوں میں آ کر بولتے ہیں انہیں دیکھوں تو کیسے کیسے جذبے مری آنکھوں کے اندر بولتے ہیں ہوائیں ناچتی ہیں میرے سر پر مرے خوں میں سمندر بولتے ہیں میں صدیوں کے تفاخر کی زباں ہوں زمانے میرے اندر ...

    مزید پڑھیے

    کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا

    کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا لیکن یہاں سوال شکست انا کا تھا کچھ عشق و عاشقی پہ نہیں میرا اعتقاد میں جس کو چاہتا تھا حسیں انتہا کا تھا جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا تاریک رات موسم برسات جان زار گرداب پیچھے سامنے طوفاں ہوا کا ...

    مزید پڑھیے

    رہ گماں سے عجب کارواں گزرتے ہیں

    رہ گماں سے عجب کارواں گزرتے ہیں مری زمیں سے کئی آسماں گزرتے ہیں جو رات ہوتی ہے کیسی مہکتی ہیں گلیاں جو دن نکلتا ہے کیا کیا بتاں گزرتے ہیں کبھی جو وقت زمانے کو دیتا ہے گردش مرے مکاں سے بھی کچھ لا مکاں گزرتے ہیں کبھی جو دیکھتے ہیں مسکرا کے آپ ادھر دل و نگاہ میں کیا کیا گماں گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    کئی آوازوں کی آواز ہوں میں

    کئی آوازوں کی آواز ہوں میں غزل کے واسطے اعزاز ہوں میں کئی حرفوں سے مل کر بن رہا ہوں بجائے لفظ کے الفاظ ہوں میں مری آواز میں صورت ہے میری کہ اپنے ساز کی آواز ہوں میں بہت فطری تھا تیرا حرف انکار ترا غم خوار ہوں دم ساز ہوں میں کہیں تو حرف آخر ہوں میں اکبرؔ کسی کا نقطۂ آغاز ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی زمین کو ہفت آسماں بنانا ہے

    ابھی زمین کو ہفت آسماں بنانا ہے اسی جہاں کو مجھے دو جہاں بنانا ہے بھٹک رہا ہے اکیلا جو کوہ و صحرا میں اس ایک آدمی کو کارواں بنانا ہے یہ شاخ گل جو گھری ہے ہزار کانٹوں میں مجھے اسی سے نیا گلستاں بنانا ہے میں جانتا ہوں مجھے کیا بنانا ہے لیکن وہاں بنانے سے پہلے یہاں بنانا ہے چراغ ...

    مزید پڑھیے

    رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں

    رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں خود جو نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں وہ شخص تو رگ رگ میں مری گونج رہا ہے برسوں سے گلا جس کا دبانے میں لگا ہوں اترا ہوں دیا لے کے نہاں خانۂ جاں میں سوئے سوئے آسیب جگانے میں لگا ہوں پتھر ہوں تو شیشے سے مجھے کام پڑا ہے شیشہ ہوں تو پتھر کے زمانے ...

    مزید پڑھیے

    تمام عالم امکاں مرے گمان میں ہے

    تمام عالم امکاں مرے گمان میں ہے وہ تیر ہوں جو ابھی وقت کی کمان میں ہے ابھی وہ صبح نہیں ہے کہ میرا کشف کھلے وہ حرف شام ہوں جو اجنبی زبان میں ہے ان آنگنوں میں ہیں برسوں سے ایک سے دن رات یہی رکا ہوا لمحہ ہر اک مکان میں ہے یہ عکس آب ہے یا اس کا دامن رنگیں عجیب طرح کی سرخی سی بادبان ...

    مزید پڑھیے

    گئی گزری کہانی لگ رہی ہے

    گئی گزری کہانی لگ رہی ہے مجھے ہر شے پرانی لگ رہی ہے وہ کہتا ہے کہ فانی ہے یہ دنیا مجھے تو جاودانی لگ رہی ہے یہ ذکر آسماں کیسا کہ مجھ کو زمیں بھی آسمانی لگ رہی ہے وہ اس حسن توجہ سے ملے ہیں یہ دنیا پر معانی لگ رہی ہے غزل دنیا میں رہتا ہوں میں اکبرؔ یہ میری راجدھانی لگ رہی ہے

    مزید پڑھیے

    زور و زر کا ہی سلسلہ ہے یہاں

    زور و زر کا ہی سلسلہ ہے یہاں لفظ کو کون پوچھتا ہے یہاں پہلا تو اب کسی جگہ بھی نہیں جس طرف دیکھو دوسرا ہے یہاں رات دن پھر رہا ہوں گلیوں میں میرا اک شخص کھو گیا ہے یہاں سحر ہے یا طلسم ہے کیا ہے ہر کوئی راہ بھولتا ہے یہاں ہر کہیں سچ ہی بولنا چاہے شاید اکبرؔ نیا نیا ہے یہاں

    مزید پڑھیے

    شرار سنگ جو اس شور و شر سے نکلے گا

    شرار سنگ جو اس شور و شر سے نکلے گا جلوس لالہ و نسریں کدھر سے نکلے گا میں جانتا ہوں کہ اس کی خبر نہ آئے گی تناظر اس کا مگر ہر خبر سے نکلے گا سبھی اسیر ہوئے اپنی اپنی صبحوں کے وہ کوئی ہوگا جو قید سحر سے نکلے گا کسی کو اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا جو دیدہ ور ہے طلسم نظر سے نکلے گا جلال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3