کہا تھا اس نے محبت کی آبرو رکھنا
کہا تھا اس نے محبت کی آبرو رکھنا
چبھے ہوں کتنے بھی کانٹے گلوں کی خو رکھنا
دلوں کو توڑ نہ ڈالے تمہاری حق گوئی
بجائے حرف کے آئینہ روبرو رکھنا
جو وقت اہل وفا سے کبھی لہو مانگے
تو سب سے پہلے لب تیغ پر گلو رکھنا
خزاں سے ہار نہ جانا کسی بھی حالت میں
نمو ملے نہ ملے خواہش نمو رکھنا
برا نہ کہنا زمانے کو ہم زمانہ ہیں
ہمارے بعد زمانے سے گفتگو رکھنا
فقیہ شہر کے فتوے کی حیثیت کیا ہے
تو خود کو اپنی نگاہوں میں سرخ رو رکھنا
وصال دوست کی ساعت بھی آنے والی ہے
سحر قریب ہے اکبرؔ ابھی وضو رکھنا