احمد طارق کی غزل

    وصل کا بیج بو نہیں پایا

    وصل کا بیج بو نہیں پایا رات زندہ تھا سو نہیں پایا فانی دنیا کے اس مسافر نے وہ بھی کھویا ہے جو نہیں پایا میری آنکھوں میں خواب بستے ہیں زندگی بھر میں رو نہیں پایا رقص کرتا ہوں میں اداسی میں میں نے محبوب کو نہیں پایا اس نے مجھ سے کہا ملو احمدؔ اور مجھ سے یہ ہو نہیں پایا

    مزید پڑھیے

    درکار تھا قرار بلانا پڑا اسے

    درکار تھا قرار بلانا پڑا اسے آواز دی تو لوٹ کے آنا پڑا اسے میں کون ہوں کہاں سے ہوں اور کس کا پیار ہوں بھولا ہوا تھا مجھ کو بتانا پڑا اسے جاتے ہوئے سبھی سے ملایا تھا اس نے ہاتھ اور سب میں میں بھی تھا سو ملانا پڑا اسے میری سبھی دعاؤں کا محور وہی تو تھا نا چاہتے ہوئے بھی بھلانا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    ڈر کے بیٹھا ہوں سرنگوں وحشت

    ڈر کے بیٹھا ہوں سرنگوں وحشت مجھ کو بتلا میں کیا کروں وحشت ہجر کافی ہے دل لگی کے لیے اب میں تیرا بھی کیا بنوں وحشت چاہے جتنا سنوار لوں خود کو آئینے میں مگر لگوں وحشت جا چلی جا کہیں میں چھپ جاؤں تب تو آنا میں جب کہوں وحشت در کھٹکنے پہ میں نے جب پوچھا کوئی کہنے لگا میں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تیری قربت کے عارضی لمحے

    تیری قربت کے عارضی لمحے مجھ کو کافی ہیں سرسری لمحے تو بھی ہو اور تیری خوشبو بھی لمس کے جاوداں غنی لمحے پیر پھسلا مرا میں ڈوب گیا تیری آنکھوں میں داخلی لمحے اس کو آئی حیا تو کب آئی میری جندڑی کے آخری لمحے لمحہ لمحہ تجھے ستائیں گے ایسے ظالم ہیں آدمی لمحے یار سے بچ بھی جائے تو ...

    مزید پڑھیے

    ڈر کے بیٹھا ہوں سرنگوں وحشت

    ڈر کے بیٹھا ہوں سرنگوں وحشت مجھ کو بتلا میں کیا کروں وحشت ہجر کافی ہے دل لگی کے لیے اب میں تیرا بھی کیا بنوں وحشت چاہے جتنا سنوار لوں خود کو آئنے میں مگر لگوں وحشت جا چلی جا کہیں میں چھپ جاؤں تب تو آنا میں جب کہوں وحشت در کھٹکنے پہ میں نے جب پوچھا کوئی کہنے لگا میں ہوں وحشت آج ...

    مزید پڑھیے

    عارضی راحتوں کے قائل ہیں

    عارضی راحتوں کے قائل ہیں لوگ آسائشوں کے قائل ہیں میں سمجھتا تھا آپ کو اپنا آپ تو سینکڑوں کے قائل ہیں یار تو عیب ہی تلاشیں گے آپ کیوں خامیوں کے قائل ہیں کافی مشکل ہے آپ تک پہنچیں رنج بس شاعروں کے قائل ہیں تم کو حیرت نہیں ہوئی احمدؔ تلخ کانٹے گلوں کے قائل ہیں

    مزید پڑھیے

    وہ مجھے معتبر نہ دیکھ سکا

    وہ مجھے معتبر نہ دیکھ سکا اور پھر عمر بھر نہ دیکھ سکا اس کو منزل تو دکھ گئی فوراً پر وہ دور سفر نہ دیکھ سکا کیا بتاؤں ستم ظریف کا حال وہ مجھے اک نظر نہ دیکھ سکا تجھ کو کیسے دکھائی دیتا میں تو مجھے اس قدر نہ دیکھ سکا وہ مجھے بار بار اڑاتا رہا اور مرے خستہ پر نہ دیکھ سکا میرے ...

    مزید پڑھیے

    میری افسردگی سے لطف اٹھانے والے

    میری افسردگی سے لطف اٹھانے والے کتنے ظالم ہیں یہ سب لوگ زمانے والے لوگ ہنستے ہیں اداسی میں تڑپتا ہوں جب ایک تو درد ہے اوپر سے ستانے والے پیار اپنی جگہ پر ایک شکایت ہے مجھے تم نے آنے میں بہت دیر کی آنے والے میں کبھی پاس چلا جاتا تھا رونے کے لیے اور کبھی ذہن میں آ جاتے رلانے ...

    مزید پڑھیے

    وقت کا کیا ہے مرے یار بدل جاتا ہے

    وقت کا کیا ہے مرے یار بدل جاتا ہے آگ لگتی ہے تو بازار بدل جاتا ہے ہم درختوں کے تو پھل بھی نہیں بدلے اب تک ان پرندوں کا تو گھر بار بدل جاتا ہے خواب ہر بار صدائیں دئے رہ جاتے ہیں اک ارادہ ہے کہ ہر بار بدل جاتا ہے رات بھر وصل مسلسل میں مگن رہتا ہوں آنکھ کھلتی ہے تو کردار بدل جاتا ...

    مزید پڑھیے