Ahmad Sidiqi

احمد صدیقی

احمد صدیقی کی غزل

    اس جیسا یہاں کوئی بھی فن کار نہیں ہے

    اس جیسا یہاں کوئی بھی فن کار نہیں ہے قاتل ہے مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے اٹھوں گا مگر صبح تو ہونے دے مؤذن سونے کے لئے نیند بھی درکار نہیں ہے یوں ہے کہ فقط دیکھ کے ہوتی ہے تسلی معمولی کوئی نقش یا دیوار نہیں ہے درد دل مجروح کوئی سمجھے تو کیسے اس شہر میں مجھ سا کوئی بیمار نہیں ...

    مزید پڑھیے

    رات گزری ہے در بدر ہو کر

    رات گزری ہے در بدر ہو کر زندگی تجھ سے بے خبر ہو کر معاف کرنا مرے گناہوں کو خلد جانا ہے بے خطر ہو کر شرط اول ہے خانۂ دل کا پاؤں رکھنا ہے معتبر ہو کر تجھ سے ملنے کی ایک حسرت ہے کب گزرنا ہے میرے گھر ہو کر ان سے چلنے کی ضد کرو احمدؔ نقش چوموں گا رہ گزر ہو کر

    مزید پڑھیے

    ادھر دیکھتے ہیں ادھر دیکھتے ہیں

    ادھر دیکھتے ہیں ادھر دیکھتے ہیں ہمیشہ تری رہ گزر دیکھتے ہیں سفر ہی نہیں ختم ہوتا ہمارا مصیبت میں ہم اپنا گھر دیکھتے ہیں اگرچہ ہمارا نتیجہ نہ نکلا مگر فیل ہونے کا ڈر دیکھتے ہیں برستا رہا رات بھر گھر میں پانی خدا تیری رحمت کا در دیکھتے ہیں ہنسی مجھ کو آتی ہے تیری ہنسی پر اخوت ...

    مزید پڑھیے