رات گزری ہے در بدر ہو کر

رات گزری ہے در بدر ہو کر
زندگی تجھ سے بے خبر ہو کر


معاف کرنا مرے گناہوں کو
خلد جانا ہے بے خطر ہو کر


شرط اول ہے خانۂ دل کا
پاؤں رکھنا ہے معتبر ہو کر


تجھ سے ملنے کی ایک حسرت ہے
کب گزرنا ہے میرے گھر ہو کر


ان سے چلنے کی ضد کرو احمدؔ
نقش چوموں گا رہ گزر ہو کر