Ahmad Khayal

احمد خیال

  • 1979

احمد خیال کی غزل

    جنوں کو رخت کیا خاک کو لبادہ کیا

    جنوں کو رخت کیا خاک کو لبادہ کیا میں دشت دشت بھٹکنے کا جب ارادہ کیا میں ناصحان کی سنتا ہوں اور ٹالتا ہوں سو قرب حسن چھٹا اور نہ ترک بادہ کیا مہکتے پھول ستارے دمکتا چاند دھنک ترے جمال سے کتنوں نے استفادہ کیا ہزار رنگ میں جلوہ نما تھا حسن و جمال دل اور شوخ ہوا اس کو جتنا سادہ ...

    مزید پڑھیے

    فلک کے رنگ زمیں پر اتارتا ہوا میں

    فلک کے رنگ زمیں پر اتارتا ہوا میں تمام خلق کو حیرت سے مارتا ہوا میں دو چار سانس میں جیتا ہوں ایک عرصے تک ذرا سے وقت میں صدیاں گزارتا ہوا میں جو میرے سامنے ہے اور دل و دماغ میں بھی چہار سمت اسی کو پکارتا ہوا میں مرے نقوش پہ کاری گری رکی ہوئی ہے شکستہ چاک سے خود کو اتارتا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے

    جو ترے غم کی گرانی سے نکل سکتا ہے ہر مصیبت میں روانی سے نکل سکتا ہے تو جو یہ جان ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہے تیرا کردار کہانی سے نکل سکتا ہے شہر انکار کی پر پیچ سی ان گلیوں سے تو فقط عجز بیانی سے نکل سکتا ہے گردش دور ترے ساتھ چلے چلتا ہوں کام اگر نقل مکانی سے نکل سکتا ہے اے مری قوم ...

    مزید پڑھیے

    مرے اندر روانی ختم ہوتی جا رہی ہے

    مرے اندر روانی ختم ہوتی جا رہی ہے سو لگتا ہے کہانی ختم ہوتی جا رہی ہے اسے چھو کر لبوں سے پھول جھڑنے لگ گئے ہیں مری آتش فشانی ختم ہوتی جا رہی ہے سلگتے دشت میں اب دھوپ سہنا پڑ گئی ہے تمہاری سائبانی ختم ہوتی جا رہی ہے ہمارا دل زمانے سے الجھنے لگ گیا ہے تمہاری حکمرانی ختم ہوتی جا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ان دیکھی فضا تصویر کرنا چاہیئے

    کوئی ان دیکھی فضا تصویر کرنا چاہیئے خواب کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہیئے میں بھٹکتا پھر رہا ہوں واہموں کے درمیاں گرد لپٹی روح کی تطہیر کرنا چاہیئے جن دنوں دیوانگی ٹھہری ہوئی ہو ذات میں ایک دنیا ان دنوں تسخیر کرنا چاہیئے جس صدا میں سو طرح کے رنگ جھلمل کرتے ہوں وہ صدا ہر حال میں ...

    مزید پڑھیے

    فنا کے دشت میں کب کا اتر گیا تھا میں

    فنا کے دشت میں کب کا اتر گیا تھا میں تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مر گیا تھا میں کسی کے دست ہنر نے مجھے سمیٹ لیا وگرنہ پات کی صورت بکھر گیا تھا میں وہ خوش جمال چمن سے گزر کے آیا تو مہک اٹھے تھے گلاب اور نکھر گیا تھا میں کوئی تو دشت سمندر میں ڈھل گیا آخر کسی کے ہجر میں رو رو کے بھر گیا ...

    مزید پڑھیے

    ان کو میں کربلا کے مہینے میں لاؤں گا

    ان کو میں کربلا کے مہینے میں لاؤں گا کوفہ کے سارے لوگ مدینے میں لاؤں گا یہ زر بھی ایک روز دفینے میں لاؤں گا سارے جہاں کے درد کو سینے میں لاؤں گا مٹی کچھ اجنبی سے جزیروں کی لازمی لوٹا تو اپنے ساتھ سفینے میں لاؤں گا پہلے کروں گا چھت پہ بہت دیر گفتگو پھر اس کے بعد چاند کو زینے میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3