Ahmad Khayal

احمد خیال

  • 1979

احمد خیال کی غزل

    دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

    دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے اب وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے میں یہ ایسے ہی نہیں چھان رہا ہوں اب تک خاک میں کوئی ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے اس محبت میں ہر اک شے بھی تو لٹ سکتی ہے اس محبت میں خسارہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    دریا میں دشت دشت میں دریا سراب ہے

    دریا میں دشت دشت میں دریا سراب ہے اس پوری کائنات میں کتنا سراب ہے روزانہ اک فقیر لگاتا ہے یہ صدا دنیا سراب ہے ارے دنیا سراب ہے موسیٰ نے ایک خواب حقیقت بنا دیا ویسے تو گہرے پانی میں رستہ سراب ہے پوری طرح سے ہاتھ میں آیا نہیں کبھی وہ حسن بے مثال بھی آدھا سراب ہے کھلتا نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    جیسی ہونی ہو وہ رفتار نہیں بھی ہوتی

    جیسی ہونی ہو وہ رفتار نہیں بھی ہوتی راہ اس سمت کی ہموار نہیں بھی ہوتی میں تہی دست لڑائی کے ہنر سیکھتا ہوں کبھی اس ہاتھ میں تلوار نہیں بھی ہوتی پھر بھی ہم لوگ تھے رسموں میں عقیدوں میں جدا گر یہاں بیچ میں دیوار نہیں بھی ہوتی وہ مری ذات سے انکار کیے رکھتا ہے گر کبھی صورت انکار ...

    مزید پڑھیے

    اسے اک اجنبی کھڑکی سے جھانکا

    اسے اک اجنبی کھڑکی سے جھانکا زمانے کو نئی کھڑکی سے جھانکا وہ پورا چاند تھا لیکن ہمیشہ گلی میں ادھ کھلی کھڑکی سے جھانکا میں پہلی مرتبہ نشے میں آیا کوئی جب دوسری کھڑکی سے جھانکا امر ہونے کی خواہش مر گئی تھی جب اس نے دائمی کھڑکی سے جھانکا میں سبزے پر چلا تھا ننگے پاؤں سحر دم ...

    مزید پڑھیے

    سکوت توڑنے کا اہتمام کرنا چاہیئے

    سکوت توڑنے کا اہتمام کرنا چاہیئے کبھی کبھار خود سے بھی کلام کرنا چاہیئے ادب میں جھکنا چاہیئے سلام کرنا چاہیئے خرد تجھے جنون کو امام کرنا چاہیئے الجھ گئے ہیں سارے تار اب مرے خدا تجھے طویل داستاں کا اختتام کرنا چاہیئے تمام لوگ نفرتوں کے زہر میں بجھے ہوئے محبتوں کے سلسلوں کو ...

    مزید پڑھیے

    غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا

    غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا ہری بھری رتوں کو میری شال کر دیا گیا قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں سو جو بھی اپنے پاس تھا نکال کر دیا گیا میں زخم زخم ہو گیا لہو وفا کو رو گیا لڑائی چھڑ گئی تو مجھ کو ڈھال کر دیا گیا گلاب رت کی دیویاں نگر گلاب کر گئیں میں سرخ رو ہوا اسے بھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ تعلق تری پہچان بنا سکتا تھا

    یہ تعلق تری پہچان بنا سکتا تھا تو مرے ساتھ بہت نام کما سکتا تھا یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا میں نے بازار میں اک بار ضیا بانٹی تھی میرا کردار مرے ہاتھ کٹا سکتا تھا کچھ مسائل مجھے گھر روک رہے ہیں ورنہ میں بھی مجنوں کی طرح خاک اڑا سکتا ...

    مزید پڑھیے

    میں وحشت و جنوں میں تماشا نہیں بنا

    میں وحشت و جنوں میں تماشا نہیں بنا صحرا مرے وجود کا حصہ نہیں بنا اس بار کوزہ گر کی توجہ تھی اور سمت ورنہ ہماری خاک سے کیا کیا نہیں بنا سوئی ہوئی انا مرے آڑے رہی سدا کوشش کے باوجود بھی کاسہ نہیں بنا یہ بھی تری شکست نہیں ہے تو اور کیا جیسا تو چاہتا تھا میں ویسا نہیں بنا ورنہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    بستی سے چند روز کنارہ کروں گا میں

    بستی سے چند روز کنارہ کروں گا میں وحشت کو جا کے دشت میں مارا کروں گا میں ویسے تو یہ زمین مرے کام کی نہیں لیکن اب اس کے ساتھ گزارا کروں گا میں شاید کہ اس سے مردہ سمندر میں جان آئے صحرا میں کشتیوں کو اتارا کروں گا میں منظر کا رنگ رنگ نگاہوں میں آئے گا اک ایسے زاویے سے نظارہ کروں گا ...

    مزید پڑھیے

    قیامت سے قیامت سے گزارے جا رہے تھے

    قیامت سے قیامت سے گزارے جا رہے تھے یہ کن ہاتھوں ہزاروں لوگ مارے جا رہے تھے سنہری جل پری دیکھی تو پھر پانی میں کودے وگرنہ ہم تو دریا کے کنارے جا رہے تھے سمندر ایک قطرے میں سمیٹا جا رہا تھا شتر سوئی کے ناکے سے گزارے جا رہے تھے چمن زاروں میں خیمہ زن تھے صحراؤں کے باسی ہرے منظر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3