Ahmad Khayal

احمد خیال

  • 1979

احمد خیال کی غزل

    جس سمے تیرا اثر تھا مجھ میں

    جس سمے تیرا اثر تھا مجھ میں بات کرنے کا ہنر تھا مجھ میں صبح ہوتے ہی سبھی نے دیکھا کوئی تا حد نظر تھا مجھ میں ماں بتاتی ہے کہ بچپن کے سمے کسی آسیب کا ڈر تھا مجھ میں جو بھی آیا کبھی واپس نہ گیا ایسی چاہت کا بھنور تھا مجھ میں میں تھا صدیوں کے سفر میں احمدؔ اور صدیوں کا سفر تھا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا

    غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا ہری بھری رتوں کو میری شال کر دیا گیا قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں سو جو بھی اپنے پاس تھا نکال کر دیا گیا میں زخم زخم ہو گیا لہو وفا کو رو گیا لڑائی چھڑ گئی تو مجھ کو ڈھال کر دیا گیا گلاب رت کی دیویاں نگر گلاب کر گئیں میں سرخ رو ہوا اسے بھی ...

    مزید پڑھیے

    شہر صدمات سے آگے نہیں جانے والا

    شہر صدمات سے آگے نہیں جانے والا میں تری ذات سے آگے نہیں جانے والا تو بھی اوقات میں رہ مجھ سے جھگڑنے والے میں بھی اوقات سے آگے نہیں جانے والا ایسے لگتا ہے مری جان تعلق اپنا اس ملاقات سے آگے نہیں جانے والا آج کی رات ہے بس نور کی کرنوں کا جلال دیپ اس رات سے آگے نہیں جانے والا میرے ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا

    ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا شب وصال تمھارا جمال ایسا تھا ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا میں چل پڑا ہوں اندھیرے کی انگلیاں تھامے اترتی شام کے رخ کا جمال ایسا تھا ذرا سی دیر بھی ٹھہرا نہیں ہوں موجوں میں سمے کے بحر میں اب کے اچھال ایسا ...

    مزید پڑھیے

    کل رات اک عجیب پہیلی ہوئی ہوا

    کل رات اک عجیب پہیلی ہوئی ہوا جلتے ہوئے دیوں کی سہیلی ہوئی ہوا شدت سے ہانپ ہانپ کے مردہ سی ہو چکی وحشت زدہ چراغ سے کھیلی ہوئی ہوا پلٹی تو داستان بھی پلٹے گی ایک دم وادی کی بند سمت دھکیلی ہوئی ہوا سب پات جھڑ چکے ہیں دیے بھی شکستہ ہیں رقص و جنوں کی رت میں اکیلی ہوئی ہوا کھڑکی سے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی خوف سے تشکیل نہیں کرنی مجھے

    زندگی خوف سے تشکیل نہیں کرنی مجھے رات سے ذات کی تکمیل نہیں کرنی مجھے کسی درویش کے حجرے سے ابھی آیا ہوں سو ترے حکم کی تعمیل نہیں کرنی مجھے چھوڑ دی دشت نوردی بھی زیاں کاری بھی زندگی اب تری تذلیل نہیں کرنی مجھے دل کے بازار میں زنجیر زنی ہونی نہیں آنکھ بھی آنکھ رہے جھیل نہیں کرنی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں

    کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں پھر تعلق کے بکھرنے کی شکایت کیسی جب اسے کانچ کے دھاگوں میں پرونا ہے ہمیں انگلیوں کی سبھی پوروں سے لہو رستا ہے اپنے دامن کے یہ کس داغ کو دھونا ہے ہمیں پھر اتر آئے ہیں پلکوں پہ سسکتے آنسو پھر کسی شام کے ...

    مزید پڑھیے

    اے تعصب زدہ دنیا ترے کردار پہ خاک

    اے تعصب زدہ دنیا ترے کردار پہ خاک بغض کی گرد میں لپٹے ہوئے معیار پہ خاک ایک عرصے سے مری ذات میں آباد ہے دشت ایک عرصے سے پڑی ہے در و دیوار پہ خاک وہ غزالوں سے ابھی سیکھ کے رم لوٹا ہے بال ہیں دھول میں گم اور لب و رخسار پہ خاک مجھے پلکوں سے صفائی کی سعادت ہو نصیب ڈال کر جائے ہوا روز ...

    مزید پڑھیے

    دشت و جنوں کا سلسلہ میرے لہو میں آ گیا

    دشت و جنوں کا سلسلہ میرے لہو میں آ گیا یہ کس جگہ پہ میں تمہاری جستجو میں آ گیا وہ سرو قامت ہو گیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے جانے کہاں سے زور سا اس کی نمو میں آ گیا بس چند لمحے پیشتر وہ پاؤں دھو کے پلٹا ہے اور نور کا سیلاب سا اس آب جو میں آ گیا چاروں طرف ہی تتلیوں کے رقص ہونے لگ گئے تو آ ...

    مزید پڑھیے

    دشت میں وادئ شاداب کو چھو کر آیا

    دشت میں وادئ شاداب کو چھو کر آیا میں کھلی آنکھ حسیں خواب کو چھو کر آیا اس کو چھو کر مجھے محسوس ہوا ہے ایسے جیسے میں ریشم و کمخواب کو چھو کر آیا مجھ کو معلوم ہے پوروں کے دمکنے کا جواز رات میں خواب میں مہتاب کو چھو کر آیا جسم کے ساتھ مری روح بھی نم ہونے لگی جب سے اس دیدۂ پر آب کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3