Ahmad Azimabadi

احمد عظیم آبادی

اصلاحی اور تعمیری موضوعات کی شاعری کے لیے جانے جاتے ہیں

A poet known for his verses of reformative nature

احمد عظیم آبادی کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے

    بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے دود چراغ جو کسی شوراب سے جلے ماتھے کی بندی ہاتھ کی راکھی دعا کے بول بیمار کے قریب مسیحائی میں ڈھلے کاغذ کی ناؤ ٹوٹا دیا تاش کا محل اپنے ہیں ہم جلیس یہی چند منچلے اتنا تو اہتمام رہے آرتی کے ساتھ گیہوں کی فصل کے لیے شوراب بھی ڈھلے احمدؔ اب آفتاب کے ...

    مزید پڑھیے

    اس پار تو خیر آسماں ہے

    اس پار تو خیر آسماں ہے اس پار اگر دھواں دھواں ہے اندھا ہے غریب خوش گماں ہے اور سامنے کھائی ہے کنواں ہے دیوار کہن کے زیر سایہ بالو کے محل کی داستاں ہے جلتی ہوئی ریت کا سہارا جلتی ہوئی ریت بھی کہاں ہے پتھر کی لکیر کے علاوہ مٹی کا دیا بھی درمیاں ہے ہر شہر کے زیر پردہ جنگل احمدؔ ...

    مزید پڑھیے

    شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے

    شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے موجب گریۂ شام و سحری آج بھی ہے وہی آئینہ بکف دیدہ وری آج بھی ہے ان میں پہلے کی طرح خود نگری آج بھی ہے سنگ باروں کے لیے درد سری آج بھی ہے کل گراں تھی جو مری شیشہ‌ گری آج بھی ہے آج بھی مورد الزام ہے معصوم نگاہ جرم الزام سے کل بھی تھا بری آج بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم راز رقیب ہو گئے ہو

    ہم راز رقیب ہو گئے ہو اب میرے قریب ہو گئے ہو تم اپنا مکان بھی اجالو تاروں کے منیب ہو گئے ہو بیمار امید کو دعا دو مجبور طبیب ہو گئے ہو تابوت میں روح پھونکنے کو تم اذن صلیب ہو گئے ہو ہر پردہ کے بعد ایک پردہ حد درجہ عجیب ہو گئے ہو سونے کی انگشتری میں احمدؔ انگشت غریب ہو گئے ہو

    مزید پڑھیے

4 نظم (Nazm)

    تنہائی

    مجھ سا تنہا نہیں دنیا میں خدایا کوئی میں نہ اپنا ہوں کسی کا بھی نہ میرا کوئی کیا ملا مجھ کو چہل سالہ رفاقت کر کے اب کسی پر نہ کرے آہ بھروسا کوئی تابش ہجر نے دل کی یہ بنا دی صورت جیسے ہو دھوپ میں تپتا ہوا صحرا کوئی آتش شوق کی اٹھی ہیں کچھ ایسی لہریں جس طرح آگ کا بہتا ہوا دریا کوئی ایک ...

    مزید پڑھیے

    برسات اور شاعر

    تھا درختوں کو ابھی عالم حیرت ایسا جیسے دلبر سے یکایک کوئی ہو جائے دو چار ڈالیاں ہلنے لگیں تیز ہوائیں جو چلیں پتے پتے میں نظر آنے لگی تازہ بہار سنسناہٹ ہوئی جھونکوں سے ہوا کے ایسی چھٹ گئی ہوں کہیں لاکھوں میں ہوائی یکبار رعد گرجا ارے وہ دیکھنا بجلی چمکی ہلکی ہلکی سی وہ پڑنے لگی ...

    مزید پڑھیے

    میرا وطن

    گوتم ہوئے کہ نانک کاکی ہوئے کہ چشتی لودی ہوئے کہ تغلق سید ہوئے کہ خلجی آ آ کے جس میں ان کی ملتی گئی ہے مٹی نا اتفاقیوں نے جس پر گرائی بجلی میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے اونچے پہاڑ جس کے تھے راستوں کو روکے دشمن کو جس کے دریا لاتے تھے پر ڈبو کے علم و ہنر کی دولت جس نے لٹائی سو ...

    مزید پڑھیے

    ایک شاعر کا خواب

    کہیں اک شب جو اپنے بستر راحت پہ جا لیٹا رہا ہے چین تھوڑی دیر آنکھیں لگ گئیں آخر بلا کا خواب راحت میں مجھے منظر نظر آیا قلم میں یہ کہاں طاقت کہ اس کو کر سکے ظاہر نظر آیا مجھے میدان جس میں ہو کا عالم تھا نہ اپنا ہم سفر کوئی نہ اپنا کوئی ہم دم تھا درختوں کے نشاں کچھ تھے مگر سیل حوادث ...

    مزید پڑھیے