Ahmad Azimabadi

احمد عظیم آبادی

اصلاحی اور تعمیری موضوعات کی شاعری کے لیے جانے جاتے ہیں

A poet known for his verses of reformative nature

احمد عظیم آبادی کی غزل

    بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے

    بازار کی فصیل بھی رخسار پر ملے دود چراغ جو کسی شوراب سے جلے ماتھے کی بندی ہاتھ کی راکھی دعا کے بول بیمار کے قریب مسیحائی میں ڈھلے کاغذ کی ناؤ ٹوٹا دیا تاش کا محل اپنے ہیں ہم جلیس یہی چند منچلے اتنا تو اہتمام رہے آرتی کے ساتھ گیہوں کی فصل کے لیے شوراب بھی ڈھلے احمدؔ اب آفتاب کے ...

    مزید پڑھیے

    اس پار تو خیر آسماں ہے

    اس پار تو خیر آسماں ہے اس پار اگر دھواں دھواں ہے اندھا ہے غریب خوش گماں ہے اور سامنے کھائی ہے کنواں ہے دیوار کہن کے زیر سایہ بالو کے محل کی داستاں ہے جلتی ہوئی ریت کا سہارا جلتی ہوئی ریت بھی کہاں ہے پتھر کی لکیر کے علاوہ مٹی کا دیا بھی درمیاں ہے ہر شہر کے زیر پردہ جنگل احمدؔ ...

    مزید پڑھیے

    شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے

    شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے موجب گریۂ شام و سحری آج بھی ہے وہی آئینہ بکف دیدہ وری آج بھی ہے ان میں پہلے کی طرح خود نگری آج بھی ہے سنگ باروں کے لیے درد سری آج بھی ہے کل گراں تھی جو مری شیشہ‌ گری آج بھی ہے آج بھی مورد الزام ہے معصوم نگاہ جرم الزام سے کل بھی تھا بری آج بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم راز رقیب ہو گئے ہو

    ہم راز رقیب ہو گئے ہو اب میرے قریب ہو گئے ہو تم اپنا مکان بھی اجالو تاروں کے منیب ہو گئے ہو بیمار امید کو دعا دو مجبور طبیب ہو گئے ہو تابوت میں روح پھونکنے کو تم اذن صلیب ہو گئے ہو ہر پردہ کے بعد ایک پردہ حد درجہ عجیب ہو گئے ہو سونے کی انگشتری میں احمدؔ انگشت غریب ہو گئے ہو

    مزید پڑھیے