میرا وطن

گوتم ہوئے کہ نانک کاکی ہوئے کہ چشتی
لودی ہوئے کہ تغلق سید ہوئے کہ خلجی
آ آ کے جس میں ان کی ملتی گئی ہے مٹی
نا اتفاقیوں نے جس پر گرائی بجلی
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے


اونچے پہاڑ جس کے تھے راستوں کو روکے
دشمن کو جس کے دریا لاتے تھے پر ڈبو کے
علم و ہنر کی دولت جس نے لٹائی سو کے
بچے گدا ہیں جس کے سب اپنا مال کھو کے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے


دولت کا جس کی عالم میں چار سو تھا چرچا
جس کے جواہروں نے تاجوں کو نور بخشا
غیروں کا جس زمیں کی کھیتی نے پیٹ پالا
ادبار نے پلٹ دی آ کر جہاں کی کایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے


بارش کی طرح جس میں پڑتی تھی خیروبرکت
ملتی تھی جس زمیں میں روزی بلا مشقت
سارے جہاں نے جا کر جس کی اڑائی دولت
جس جا بر آئی اپنی بدکاریوں کی نکہت
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے


بہتا تھا جس زمیں میں علم و ہنر کا دریا
قوموں نے باری باری چھاپہ ہے جس پہ مارا
بام فلک پہ چڑھ کر دیکھا ہے جس نے نیچا
جور فلک نے جس جا الٹی بہائی گنگا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے