Ahmad Ata

احمد عطا

احمد عطا کی غزل

    اک رات میں سو نہیں سکا تھا

    اک رات میں سو نہیں سکا تھا اور خواب بھی دیکھنا پڑا تھا دل اتنا کیوں دھڑک رہا ہے میں کس کی نظر میں آ گیا تھا جیسا بھی غلط سہی، میں ہوں ہوں جیسا بھی غلط سہی میں تھا، تھا کمرے میں آگ لگ گئی تھی دل جب کسی دھیان میں لگا تھا ویسا ہی خراب شخص ہوں میں جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا دل کی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی گماں ہوں کوئی یقیں ہوں کہ میں نہیں ہوں

    کوئی گماں ہوں کوئی یقیں ہوں کہ میں نہیں ہوں میں ڈھونڈھتا ہوں کہ میں کہیں ہوں کہ میں نہیں ہوں کہیں ستارے کہیں ہیں جگنو کہیں اندھیرے میں آسماں ہوں کوئی زمیں ہوں کہ میں نہیں ہوں میں ایک دل ہوں کسی کے دل میں کہ واہمہ ہوں کوئی مکاں ہوں کوئی مکیں ہوں کہ میں نہیں ہوں دکھائی دیتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    دل کوئی پھول نہیں اور ستارہ بھی نہیں

    دل کوئی پھول نہیں اور ستارہ بھی نہیں کار دنیا کا نہیں اور تمہارا بھی نہیں ہم کسی سمت چلیں راہ لگیں کھو جائیں راہ گم گشتہ ہیں سو ایسا اشارہ بھی نہیں ہم کو تو وصل کے قابل نہیں جانا تم نے ہم چلے جائیں کہیں تم کو گوارا بھی نہیں نارسائی نے عجب طور سکھائے ہیں عطاؔ یعنی بھولے بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دونوں کے جو درمیاں خلا ہے

    دونوں کے جو درمیاں خلا ہے یہ اصل میں کوئی تیسرا ہے تجھ بن یہ مرا وجود کیا ہے اک پیڑ ہے اور کھوکھلا ہے اک چاپ سنائی دے رہی ہے دروازے سے وہ پلٹ گیا ہے وہ ایک دن انتظار کا دن پھر زندگی بھر وہ دن رہا ہے تعبیر بتائی جا چکی ہے اب آنکھ کو خواب دیکھنا ہے بس دھند نگل چکی ہے یہ رات نظارہ ...

    مزید پڑھیے

    میں تری مانتا لیکن جو مرا دل ہے نا

    میں تری مانتا لیکن جو مرا دل ہے نا در کا پتھر ہے ہٹانا اسے مشکل ہے نا یہ ترا حسن کچھ ایسا نہیں پوجیں جس کو لیکن اے یار ترے گال کا جو تل ہے نا جو مرے واسطے دن رات دعا کرتے ہیں دشمن جاں یہ بتا ان میں تو شامل ہے نا مانگنا آتا نہیں اور خدا کہتا ہے اے فرشتو اسے دیکھو یہ جو سائل ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا عشق سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں

    ہمارا عشق سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں وہی شدید اذیت ہے یعنی ہم ابھی ہیں اسی پرانی کہانی میں سانس لیتے ہیں وہی پرانی محبت ہے یعنی ہم ابھی ہیں نہ جانے کب سے در داستاں پہ بیٹھے ہیں اور انتظار کی ہمت ہے یعنی ہم ابھی ہیں طلب کے کرب میں اک مرگ کے دعا گو تھے طلب میں ویسی ہی شدت ہے یعنی ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہ مرا وہم تو کچھ اور سنا جاتا ہے

    یہ مرا وہم تو کچھ اور سنا جاتا ہے اک گماں ہے کہ ترا عکس دکھا جاتا ہے ایک تصویر دل ہجر زدہ میں ہے تری ایک تصویر کوئی اور بنا جاتا ہے تیری منت بھی مری جاں بڑی کی جاتی ہے زیر لب ایک وظیفہ بھی پڑھا جاتا ہے چاند نے مجھ پہ کماں ایک تنی ہوتی ہے تیر لگتا نہیں کس اور چلا جاتا ہے تو جو آتا ...

    مزید پڑھیے

    خواب کا اذن تھا تعبیر اجازت تھی مجھے

    خواب کا اذن تھا تعبیر اجازت تھی مجھے وہ سمے ایسا تھا مرنے میں سہولت تھی مجھے ایک بے برگ شجر دھند میں لپٹا ہوا تھا شاخ پر بیٹھی دعاؤں کی ضرورت تھی مجھے رات مسجد میں اندھیرا تو بہت تھا لیکن یاد بھولی سی کوئی راہ عبادت تھی مجھے اے مری جاں وہی غالبؔ کی سی حالت تھی مری تیرے جانے کی ...

    مزید پڑھیے

    پہلے ہم اشک تھے پھر دیدۂ نم ناک ہوئے

    پہلے ہم اشک تھے پھر دیدۂ نم ناک ہوئے اک جوئے آب رواں ہاتھ لگی پاک ہوئے اور پھر سادہ دلی دل میں کہیں دفن ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چالاک ہوئے اور پھر شام ہوئی رنگ کھلے جام بھرے اور پھر ذکر چھڑا تھوڑے سے غم ناک ہوئے اور پھر آہ بھری اشک بہے شعر کہے اور پھر رقص کیا دھول اڑی خاک ...

    مزید پڑھیے

    مرے لیے ترا ہونا اہم زیادہ ہے

    مرے لیے ترا ہونا اہم زیادہ ہے یہ باقی ذکر وجود و عدم زیادہ ہے وہ خالی پن ہے کہیں کچھ کشش نہیں ہے مجھے کوئی خوشی ہے بہت اور نہ غم زیادہ ہے ترے بغیر ضرورت ہی کیا پڑی ہے مجھے ترے بغیر یہ دم ہے سو دم زیادہ ہے یہ میری آنکھ ہے یاں خواب کیسے ٹھہریں گے کہ سیم خوردہ زمیں ہے جو نم زیادہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3