خواب کا اذن تھا تعبیر اجازت تھی مجھے

خواب کا اذن تھا تعبیر اجازت تھی مجھے
وہ سمے ایسا تھا مرنے میں سہولت تھی مجھے


ایک بے برگ شجر دھند میں لپٹا ہوا تھا
شاخ پر بیٹھی دعاؤں کی ضرورت تھی مجھے


رات مسجد میں اندھیرا تو بہت تھا لیکن
یاد بھولی سی کوئی راہ عبادت تھی مجھے


اے مری جاں وہی غالبؔ کی سی حالت تھی مری
تیرے جانے کی گھڑی تھی کہ قیامت تھی مجھے


داستاں گو نے دکھا دی تھی مجھے شہزادی
اور پھر خواب میں چلنے کی بھی عادت تھی مجھے