آفتاب شکیل کی غزل

    میری مٹی سے اگر روح نکالی جائے

    میری مٹی سے اگر روح نکالی جائے اس میں یہ تو نہیں تصدیق کرا لی جائے میں تجھے خواب میں یوں خواب سجاتا دیکھوں جیسے تصویر میں تصویر بنا لی جائے تم اگر چاہو مرا ہاتھ جھٹک سکتی ہو جس گھڑی تم سے میری بات نہ ٹالی جائے کوئی امید نہیں تم سے مگر چپ کے سبب دل کو بہلانا ہے آواز لگا لی جائے

    مزید پڑھیے

    جو تھا ہر آن مبتلا میرا

    جو تھا ہر آن مبتلا میرا وہ بھی سمجھا نہ ماجرا میرا ہے محبت میں کچھ ہوس پنہاں تو نہ کریو کبھی کہا میرا تیرے نزدیک رہ کے بھی تجھ سے کم ہی کم واسطہ رہا میرا سب سے اول ہے بات گڑھنے میں ہائے ظالم معاشرہ میرا اتنا ویران تھا میں اندر سے مجھ میں من ہی نہیں لگا میرا کاش تو دھوپ کی سڑک ...

    مزید پڑھیے

    تری چشم تر میں رواں دواں غم عشق کا جو ملال ہے

    تری چشم تر میں رواں دواں غم عشق کا جو ملال ہے یہ ہی انتہائے فراق ہے یہ ہی انتہائے وصال ہے ہے قریب پھر بھی ہے اجنبی تو ادھر نہیں میں ادھر نہیں کسی راہ کے ہیں دو سمت ہم میں جنوب ہوں تو شمال ہے مری حالتوں میں نہاں ہیں اب تری جستجو کی خرابیاں نہ میں غم زدہ نہ میں شادماں مرا حال بھی ...

    مزید پڑھیے

    موسم ہجر میں زخموں سے لدا رہتا ہے

    موسم ہجر میں زخموں سے لدا رہتا ہے دل وہ پودھا کے جو پت جھڑ میں ہرا رہتا ہے بس یہ اک بات مجھے لاتی ہے نزدیک ترے تو بھی تو میری طرح خود سے خفا رہتا ہے تبصرہ اتنا ہی کافی ہے محبت کے لئے مختصر سودے میں نقصان بڑا رہتا ہے ہم سے بہتر ہے مقدر میں سیاہ پتھر جو بن کے سرما تری پلکوں سے لگا ...

    مزید پڑھیے

    خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے

    خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے ہم وہ کاہل ہیں جو اتنا بھی نہیں کر سکتے وہ سناتے ہیں رہائی کے فریضے سب کو جو رہا ایک پرندہ بھی نہیں کر سکتے کتنے مجبور ہیں ہم عام سی شکلوں والے خود کو ایجاد دوبارہ بھی نہیں کر سکتے چاہتے ہیں جسے دشمن کی نواسی نکلی اب تو ہم عشق ادھورا بھی ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی عمر جب اچھال کی تھی

    عشق کی عمر جب اچھال کی تھی کیوں تمنا تجھے زوال کی تھی دو ٹکا تھا مرے جواب کا مول دھوم ہر سو ترے سوال کی تھی دل جو ٹوٹا تو یاد آیا ہمیں چیز یہ کتنے دیکھ بھال کی تھی تھا بڑا ہجر کا ملال مگر کیا کروں بات ہی ملال کی تھی اچھے دن وہ بھی اب میاں جاؤ یہ کہانی تو پچھلے سال کی تھی ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    عجب معمول ہے آوارگی کا

    عجب معمول ہے آوارگی کا گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا میں اک ...

    مزید پڑھیے

    فرضی دعویدار ہے

    فرضی دعویدار ہے اپنی جو بھی یاری ہے میرے وعدے پر مت جا یہ بالکل سرکاری ہے وقت کو کوسو کے اس کی رگ رگ میں مکاری ہے اور بھلا کیا ہے جینا مرنے کی تیاری ہے اک بس تو ہی ہے تیرا باقی دنیا داری ہے اور تو کیا کرتے تنہا خود سے ہی جھک ماری ہے تم کو پڑھ کر بھول گیا دل بھی کیسا کاری ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    کالج کا دالان نہیں ہے پیارے ظالم دنیا ہے

    کالج کا دالان نہیں ہے پیارے ظالم دنیا ہے اور یہاں سچ بولنے والا سچ میں سب سے جھوٹا ہے میں تیرے دیدار کی خاطر آ جاتا ہوں خوابوں تک ورنہ اس لذت کے علاوہ نیندوں میں کیا رکھا ہے چمکیلے کپڑوں سے پرکھا مت کر انسانی لہجے گہرے کنویں میں اجلا پانی کھرا بھی ہو سکتا ہے وعدہ کر اے دل کش ...

    مزید پڑھیے

    یہاں وہاں سے ادھر ادھر سے نہ جانے کیسے کہاں سے نکلے

    یہاں وہاں سے ادھر ادھر سے نہ جانے کیسے کہاں سے نکلے خوشی سے جینے کی جستجو میں ہزار غم ایک جاں سے نکلے یہ کمتری برتری کے فتنے یہ عام و اعلیٰ کے سرد جھگڑے ہمیں نے نازو سے دل میں پالے ہمارے ہی درمیاں سے نکلے خلوص کی گفتگو تو چھوڑو کسی کو فرصت نہیں ہے خود سے میاں غنیمت سمجھ لو شکوے ...

    مزید پڑھیے