تری چشم تر میں رواں دواں غم عشق کا جو ملال ہے
تری چشم تر میں رواں دواں غم عشق کا جو ملال ہے
یہ ہی انتہائے فراق ہے یہ ہی انتہائے وصال ہے
ہے قریب پھر بھی ہے اجنبی تو ادھر نہیں میں ادھر نہیں
کسی راہ کے ہیں دو سمت ہم میں جنوب ہوں تو شمال ہے
مری حالتوں میں نہاں ہیں اب تری جستجو کی خرابیاں
نہ میں غم زدہ نہ میں شادماں مرا حال بھی کوئی حال ہے
تو ستم کرے تو عنایتیں میں گلا کروں تو شکایتیں
ترا ہر سخن وہی عرش کی میرا بولنا بھی محال ہے
وہ برا کہے مجھے رات دن یہ رضا ہے اس کے مزاج کی
اسے آفیؔ میں بھی برا کہوں کہاں مجھ میں اتنی مجال ہے