جو تھا ہر آن مبتلا میرا
جو تھا ہر آن مبتلا میرا
وہ بھی سمجھا نہ ماجرا میرا
ہے محبت میں کچھ ہوس پنہاں
تو نہ کریو کبھی کہا میرا
تیرے نزدیک رہ کے بھی تجھ سے
کم ہی کم واسطہ رہا میرا
سب سے اول ہے بات گڑھنے میں
ہائے ظالم معاشرہ میرا
اتنا ویران تھا میں اندر سے
مجھ میں من ہی نہیں لگا میرا
کاش تو دھوپ کی سڑک ہوتی
عکس پھر تجھ پہ دوڑتا میرا
مختلف ہے خدا زمانے کے
جانے ہو کون سا خدا میرا
کون آفیؔ بنے مجھے پھر سے
ہاتھ آتا نہیں سرا میرا