یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں تنگ ہیں ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں پیکر خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت جسم کا وزن طلب ہم سے سنبھلتا ہی ...