Aftab Iqbal Shamim

آفتاب اقبال شمیم

پاکستان کے اہم نظم گو شاعر

An important poet of Nazm from Pakistan

آفتاب اقبال شمیم کی غزل

    یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں

    یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں تنگ ہیں ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں پیکر خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت جسم کا وزن طلب ہم سے سنبھلتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں

    میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں دلیل شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں بہت ستایا ہوا ہوں لئیم دنیا کا سخی ہوں دل کی پرانی خلش نکالتا ہوں زمانہ کیا ہے کبھی من کی موج میں آؤں تو نوک نقش پہ اپنی اسے اچھالتا ہوں یہ میرا کنج‌ مکاں میرا قصر عالی ہے میں اپنا سکۂ رائج یہیں پہ ڈھالتا ...

    مزید پڑھیے

    تمیز پسر زمین و ابن فلک نہ کرنا

    تمیز پسر زمین و ابن فلک نہ کرنا تم آدمی ہو تو آدمی کی ہتک نہ کرنا یہ جمع و تفریق ضرب و تقسیم کی صدی ہے عقیدہ ٹھہرا عدد کی منطق پہ شک نہ کرنا پس خرابات بند جاری ہے مے گساری سکھایا جام و سبو کو ہم نے کھنک نہ کرنا چھلاوے بن جائیں آگے جا کر یہی غزالاں تعاقب ان مہ وشوں کا تم دور تک نہ ...

    مزید پڑھیے

    اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا

    اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی کون کہتا ہے کہ اس کا حوصلہ شل ہو گیا ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں یہ علاقہ تو گھنے رستوں کا جنگل ہو گیا اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کھلے دل کا دروازہ کہ اندر سے ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنے جزو میں کھویا گیا ہے اس حد تک

    وہ اپنے جزو میں کھویا گیا ہے اس حد تک کہ اس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک کھڑی ہیں روشنیاں دست بستہ صدیوں سے حرا کے غار سے لے کر گیا کے برگد تک اٹھے تو اس کے فسوں سے لہک لہک جائے نظر پہنچ نہ سکے اس کی قامت و قد تک پتہ چلا کہ حرارت نہیں رہی دل میں گزر کے آگ سے آئے تھے اپنے مقصد ...

    مزید پڑھیے

    وہ عطر خاک اب کہاں پانی کی باس میں

    وہ عطر خاک اب کہاں پانی کی باس میں ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں کل رات آسمان مرا میہماں رہا کیا جانے کیا کشش تھی مرے التماس میں ممنون ہوں میں اپنی غزل کا یہ دیکھیے کیا کام کر گئی مرے غم کے نکاس میں میں قید ہفت رنگ سے آزاد ہو گیا کل شب نقب لگا کے مکان حواس میں پھر یہ فساد فرقہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ پیڑ یہ پہاڑ زمیں کی امنگ ہیں

    یہ پیڑ یہ پہاڑ زمیں کی امنگ ہیں سارے نشیب جن کی اٹھانوں پہ دنگ ہیں باہر ہو حبس پھر بھی دریچہ کھلا رکھوں یہ خود تسلیاں مرے جینے کا ڈھنگ ہیں ڈھونڈوں کہ انتہا کی مجھے انتہا ملے یہ شش جہات میری تمنا پہ تنگ ہیں اک عمر اک مکان کی تعمیر میں لگے ایام سے زیادہ گراں خشت و سنگ ہیں چہکے ...

    مزید پڑھیے

    جب وہ اقرار آشنائی کرے

    جب وہ اقرار آشنائی کرے گل کف شاخ کو حنائی کرے جس کو کم کم نیاز جاں ہو نصیب کوئی اقدام انتہائی کرے پھر سے تالیف دل ہو پھر کوئی اس صحیفے کی رونمائی کرے شیوۂ اہل دل یہی ہے کہ تو بیعت دست نارسائی کرے دل میں شوق نبرد ہے اتنا ہر ہزیمت مجھے رجائی کرے قرب میں جب انا کی دوری ہو کوئی ...

    مزید پڑھیے

    مثال سیل بلا نہ ٹھہرے ہوا نہ ٹھہرے

    مثال سیل بلا نہ ٹھہرے ہوا نہ ٹھہرے لگائے جائیں ہزار پہرے ہوا نہ ٹھہرے کہیں کہیں دھوپ چھپ چھپا کر اتر ہی آئی دبیز بادل ہوئے اکہرے ہوا نہ ٹھہرے ورق جب الٹے کتاب موسم دکھائے کیا کیا گلاب عارض بدن سنہرے ہوا نہ ٹھہرے وہ سانس امڈی کہ بے حسوں نے غضب میں آ کر گرا دیے حبس کے کٹہرے ہوا ...

    مزید پڑھیے

    جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا

    جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا کیا سوچنا کہ شوق کا انجام کیا ہوا جب اختیار پیشۂ فرہاد کر لیا خود سے چھپا کے خود کو زمانے کے خوف سے ہم نے تو اپنے آپ کو برباد کر لیا تھا عشق کا حوالہ نیا ہم نے اس لئے مضمون دل کو پھر سے طبع زاد کر لیا یوں بھی پناہ‌ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4