Aftab Iqbal Shamim

آفتاب اقبال شمیم

پاکستان کے اہم نظم گو شاعر

An important poet of Nazm from Pakistan

آفتاب اقبال شمیم کی غزل

    ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا

    ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی تھا نشہ ساری فضا میں ناگنوں کے زہر کا تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرائی ہوئی جسم کے اندر کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا دل میں تھیں ایسے فساد آمادہ دل کی دھڑکنیں ہو بھرا ...

    مزید پڑھیے

    ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا

    ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا کچھ روشنیٔ طبع ضروری ہے وگرنہ ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا ...

    مزید پڑھیے

    نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

    نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ

    اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ پئے ثبات تغیر پکارتے ہوئے گزرے چھتیں شکستہ ہیں نکلو نئے مکان میں آؤ زمیں کا وقت سے جھگڑا ہے خود نپٹتے رہیں گے کہا ہے کس نے کہ تم ان کے درمیان میں آؤ یہ آٹھ پہر کی دنیا تمہیں بتاؤں کہ کیا ہے نکل کے جسم سے کچھ دیر ...

    مزید پڑھیے

    بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی

    بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی کیا کیا جائے غزل یہ بھی ادھوری رہ گئی رزق سے بڑھ کر اسے کچھ اور بھی درکار تھا کل وہ طائر اڑ گیا پنجرے میں چوری رہ گئی تھی بہت شفاف لیکن دن کی اڑتی گرد میں شام تک یہ زندگی رنگت میں بھوری رہ گئی کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے اس گلی میں ...

    مزید پڑھیے

    پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر

    پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر برسوں درون سینہ سلگنا ہے پھر ہمیں لگتا ہے قفل‌ حبس ہوا کے مکان پر اک دہاڑ ہے کہ چاروں طرف سے سنائی دے گرداب چشم بن گئیں آنکھیں مچان پر موجود بھی کہیں نہ کہیں التوا میں ہے جو ہے نشان پر وہ نہیں ہے نشان پر اس میں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا

    کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا مجھے اتنا تو نہ اداس کرو کبھی آؤ نا مری عمر سرائے مہکے ہے گل ہجراں سے کبھی آؤ آ کر باس کرو کبھی آؤ نا مجھے چاند میں شکل دکھائی دے جو دہائی دے کوئی چارۂ ہوش و حواس کرو کبھی آؤ نا اسی گوشۂ یاد میں بیٹھا ہوں کئی برسوں سے کسی رفت گزشت کا پاس کرو ...

    مزید پڑھیے

    دکھائی جائے گی شہر شب میں سحر کی تمثیل چل کے دیکھیں

    دکھائی جائے گی شہر شب میں سحر کی تمثیل چل کے دیکھیں سر صلیب ایستادہ ہوگا خدائے انجیل چل کے دیکھیں گلوں نے بند قبا ہے کھولا، ہوا سے بوئے جنوں بھی آئے کریں گے اس موسم وفا میں ہم اپنی تکمیل چل کے دیکھیں غنیم شب کے خلاف اب کے زیاں ہوئی غیب کی گواہی پڑا ہوا خاک پر شکستہ پر ابابیل چل ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا

    کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا کھلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا حجاب ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا جو چاہو تو زمانے کا زمانہ واژگوں کر دو مگر ...

    مزید پڑھیے

    پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے

    پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے کوئی یہ سوکھی ہوئی ڈار ہری کر جائے جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں میری تردید مری بے بصری کر جائے معدن شب سے نکالے زر خوشبو آ کر آئے یہ معجزہ باد سحری کر جائے کثرتیں آئیں نظر ذات کی یکتائی میں یہ تماشا کبھی آشفتہ سری کر جائے لمحہ منصف بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4