Aditya Pant Naaqid

آدتیہ پنت ناقد

آدتیہ پنت ناقد کی غزل

    لب خاموش میں پنہاں ہے کوئی راز نہیں

    لب خاموش میں پنہاں ہے کوئی راز نہیں زندگی ساز ہے جس میں کوئی آواز نہیں کیوں نہ آغوش تخیل میں میں اڑتا ہی رہوں در حقیقت ہے مجھے خواہش پرواز نہیں میرے کردار میں ہے نیکی بدی پر بھاری کیوں وہ کر پائے بدی کو نظر انداز نہیں یہ تعلق جو کیا قطع ہوا قصہ تمام یہ نئی داستاں کا نقطۂ آغاز ...

    مزید پڑھیے

    آسودہ دل میں اٹھنے لگا اضطراب کیا

    آسودہ دل میں اٹھنے لگا اضطراب کیا اس زندگی میں ہو گیا شامل شتاب کیا قاصد کے ہاتھ اپنا یہ پیغام سونپ کر پھر سوچتے رہو کہ اب آئے جواب کیا اس کا ہے فضل ذرہ جو چمکے بہ سان زر ہے ورنہ کیا یہ ماہ بھی اور آفتاب کیا ہے نیند سے کوئی بھی تعلق نہیں مرا ہر دم یہ چشم وا میں ابھرتا ہے خواب ...

    مزید پڑھیے

    صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے

    صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے جہاں سے وہ گیا تھا میں وہیں ہوں مگر جینے میں وہ لذت نہیں ہے زباں پہ تلخیاں آنکھوں میں غصہ مگر کردار میں خست نہیں ہے وقار اپنا نہیں کوتاہ لیکن ترے رتبے سی بھی قامت نہیں ہے رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم تو سانسیں روکتی غربت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنوں کی ٹوٹتی ہوئی تصویر دیکھ لی

    اپنوں کی ٹوٹتی ہوئی تصویر دیکھ لی اغیار کی بھی چاہ میں تاثیر دیکھ لی آیا نہیں ہے ہوش نگاہوں کو اب تلک بکھرے ہوئے جو خوابوں کی تعبیر دیکھ لی کیا مانگتا میں تیری پشیمانی کا ثبوت آنکھوں سے بہتے اشکوں میں تعزیر دیکھ لی اب تک دکھے پرندے اسیر قفس مگر صیاد کے بھی ہاتھ میں زنجیر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیں اب کیا دل جلوں سے بول بولے جائیں گے

    دیکھیں اب کیا دل جلوں سے بول بولے جائیں گے لاگ ہی سے پھوٹ کیا دل کے پھپھولے جائیں گے ہے یہاں پیمانہ مال و نقد ہی لیکن وہاں ظرف کی میزان پر ہی لوگ تولے جائیں گے مشعل ماضی دکھا سکتی ہے مستقبل کی راہ ہے یہ کنجی جس سے سارے قفل کھولے جائیں گے یاد رکھنے کے لئے لمحے گزشتہ وقت کے اب ...

    مزید پڑھیے

    گرتا رہا میں راہ میں لیکن سنبھل گیا

    گرتا رہا میں راہ میں لیکن سنبھل گیا میں آج کس مقام کی جانب نکل گیا سوچا کیا تھا راہ یہ آسان ہے مگر پہلے قدم پہ پاؤں مرا کیوں پھسل گیا ادنیٰ سا اک فریب تھا بدلا جو یہ لباس آفت تو تب پڑی کہ میں جب خود بدل گیا آنکھیں تھی شرمسار کہیں چین بھی نہیں اس کے مگر خیال سے یہ دل بہل گیا ہو گر ...

    مزید پڑھیے

    ہے کیا خزاں میں ممکن صحرا میں باغ نکلے

    ہے کیا خزاں میں ممکن صحرا میں باغ نکلے ظلمت کو جو مٹائے ایسا چراغ نکلے شور سفیر بلبل سے گونجتا تھا کل تک کیوں آج میرے گھر میں رونے کو زاغ نکلے داغ قمر سے آخر جب آشنا ہوا میں جتنے رقیب پائے ان میں نہ داغ نکلے ڈرتا تھا میں نہ آئے وقت فراق مجھ پر کچھ وصل سے ترے اب حول دماغ نکلے ہو ...

    مزید پڑھیے