صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے
صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے
وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے
جہاں سے وہ گیا تھا میں وہیں ہوں
مگر جینے میں وہ لذت نہیں ہے
زباں پہ تلخیاں آنکھوں میں غصہ
مگر کردار میں خست نہیں ہے
وقار اپنا نہیں کوتاہ لیکن
ترے رتبے سی بھی قامت نہیں ہے
رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم
تو سانسیں روکتی غربت نہیں ہے
جہالت میں پلی دنیا میں شاید
تعقل سے بڑی نعمت نہیں ہے
چلا چل سر اٹھا کر یار ناقدؔ
لگی اب تک کوئی تہمت نہیں ہے