Aditya Pant Naaqid

آدتیہ پنت ناقد

آدتیہ پنت ناقد کی نظم

    شاعری

    کوئی تعارف ہوا نہیں نہیں کوئی آشنائی بھی ہوتی ہے تبھی حیرت شاعروں پہ تصورات کی پرچھائیوں کو ایک وجود دے پاتے ہیں کیسے اور تخیل کے پرندوں کو کورے صفحہ پر قید کر پاتے ہیں کیسے وہ حرف جو صرف حرف ہی تھے جڑ کر کس ڈور سے پر اثر اشعار بن گئے چند بکھرے ہوئے بے مطلب لفظ سمٹ کر اک دائرے ...

    مزید پڑھیے

    کاش وقت تھم جاتا

    کتاب حیات کا یہ پنا اچھا ہوتا جو برقرار رہتا وقت کی تیز رفتار پر کاش میرا بھی اختیار رہتا ایک دل کش سفینہ بن کر گزرے وقت کا لمحہ لمحہ آنکھوں کی گہری جھیل میں کھائے ہچکولے رفتہ رفتہ یہ سفینہ ساحل پا بھی لیتا گر ہاتھ میں پتوار رہتا یوں تو ایک لمبے عرصے تک ساتھ رہے ہم ایک جگہ لیکن ...

    مزید پڑھیے

    کل آج اور کل

    اپنے مستقبل و ماضی کی فقط سوچ سے تو ارے نادان کسی طرح پریشان نہ ہو حال ہی تیرا وجود اور تیری پونجی ہے خرچ کر اس کو کھلے ہاتھ پشیمان نہ ہو مانا سننے میں سنانے میں بھلی لگتی ہیں یا کتابوں میں پڑھی جاتی ہیں ایسی باتیں پر حقیقت میں پرے ہوتی ہیں سچائی سے صرف اک فلسفہ ہی رہتی ہیں ایسی ...

    مزید پڑھیے

    آج چلی ہے ہوا

    آج چلی ہے ہوا مدتوں کے بعد حیات سے تعلق تھا جس کا ہر وہ شے ترس گئی کہ گوش کو تنفس کی سرگم نصیب ہو سنائی دے سرسراتی سی ایک آواز کوئی سرگوشی کوئی دستک بن کر آتی جاتی جو میرے قریب ہو دست ماضی سے جوڑ اپنے بازو یاد ایام کے آغوش میں گم گشتہ دیدۂ تر چل پڑا ہے ایک تلاش میں یا تو آنکھوں کی ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی

    بیٹھے بیٹھے ریل کے ڈبے میں ہوتی ہیں باتیں لوگوں سے راستہ کاٹنے کے لئے وقت بانٹنے کے لئے منزل پر پہنچ کر دھندلی یادیں بن کر یہ لوگ چھوٹ جاتے ہیں اسی ڈبے میں زمین پر بکھرے ہوئے مونگ پھلی کے چھلکوں کی مانند مگر آج یہ کیسے اجنبی شخص سے ہوئی ملاقات سفر میں کہ جس کا تصور قلی کے سر پر ...

    مزید پڑھیے

    کشمکش

    ایک اندھیارے کونے میں کچھ ڈرا ڈرا کچھ سہما سا بیٹھا تھا ایک اجنبی من میں ایک خوف لیے کہیں چاندی کی چمک اسے اندھا نہ کر دے یا پیسے کی کھنک پاگل نہ کر دے ماضی کی سوچ سے آنکھوں کی کھڑکی پر ایک پرت سی چڑھ گئی نمی کی پھر جو دیکھا مستقبل کی اور نظر آیا کچھ بھی نہیں ایک دھند کے سوا اپنی ...

    مزید پڑھیے

    یادیں

    یادیں ہوتی ہیں سمندر کے ساحل پر گھومتے ایک بچے کی طرح جو اٹھا کر کسی سیپی کسی کنکڑ کو رکھ لے اپنے ننھے سے خزانے میں اور پھر ایک دن وہی کنکڑ ہاتھوں سے چھوٹ جاتے ہیں انجانے میں پھر جٹ جاتا ہے وہ نادان بٹور کر انہیں پھر سے سجانے میں

    مزید پڑھیے