Adeem Hashmi

عدیم ہاشمی

مقبول پاکستانی شاعر جنہوں نے عوامی تجربات کو آواز دی

Popular Pakistani poet who gave voice to peple's life experiences.

عدیم ہاشمی کی غزل

    ایسا بھی نہیں اس سے ملا دے کوئی آ کر

    ایسا بھی نہیں اس سے ملا دے کوئی آ کر کیسا ہے وہ اتنا تو بتا دے کوئی آ کر یہ بھی تو کسی ماں کا دلارا کوئی ہوگا اس قبر پہ بھی پھول چڑھا دے کوئی آ کر سوکھی ہیں بڑی دیر سے پلکوں کی زبانیں بس آج تو جی بھر کے رلا دے کوئی آ کر برسوں کی دعا پھر نہ کہیں خاک میں مل جائے یہ ابر بھی آندھی ...

    مزید پڑھیے

    سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے

    سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی

    بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا چاپ یہ کس کی مری ہر رہ گزر میں رہ گئی گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار بس ذرا ...

    مزید پڑھیے

    تعلق اپنی جگہ تجھ سے برقرار بھی ہے

    تعلق اپنی جگہ تجھ سے برقرار بھی ہے مگر یہ کیا کہ ترے قرب سے فرار بھی ہے کرید اور زمیں موسموں کے متلاشی! یہیں کہیں مری کھوئی ہوئی بہار بھی ہے یہی نہ ہو تری منزل ذرا ٹھہر اے دل وہی مکاں ہے دیوں کی وہی قطار بھی ہے یوں ہی تو روح نہیں توڑتی حصار بدن ضرور اپنا کوئی بادلوں کے پار بھی ...

    مزید پڑھیے

    آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر

    آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر صحرا میں اگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے طوفاں کے ہی کر جائے حوالے ...

    مزید پڑھیے

    شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں

    شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں تتلی ملی حنوط پرانی کتاب میں دیکھوں گا کس طرح سے کسی کو عذاب میں سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں پھر بے وفا کو بحر محبت سمجھ لیا پھر دل کی ناؤ ڈوب گئی ہے سراب میں پہلے گلاب اس میں دکھائی دیا مجھے اب وہ مجھے دکھائی دیا ہے گلاب میں وہ رنگ آتشیں ...

    مزید پڑھیے

    غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا

    غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا وہ مرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا گھورتا تھا میں خلا میں تو سجی تھیں محفلیں میرا آنکھوں کا جھپکنا مجھ کو تنہا کر گیا ہر طرف اڑنے لگا تاریک سایوں کا غبار شام کا جھونکا چمکتا شہر میلا کر گیا چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری مٹھاس میں سمندر ...

    مزید پڑھیے

    لوگوں کے درد اپنی پشیمانیاں ملیں

    لوگوں کے درد اپنی پشیمانیاں ملیں ہم شاہ غم تھے ہم کو یہی رانیاں ملیں صحراؤں میں بھی جا کے نظر آئے سیل آب دریا سے دور بھی ہمیں طغیانیاں ملیں آیا نہ پھر وہ دور کہ جی بھر کے کھیلئے بچپن کے بعد پھر نہ وہ نادانیاں ملیں رہ کر الگ بھی ساتھ رہا ہے کوئی خیال تنہائی میں بھی خود پہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا

    آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا یہ ہجر ہے تو ...

    مزید پڑھیے

    کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا

    کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا زر و مال و جواہر لے بھی اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4