Adeeb Sohail

ادیب سہیل

معروف شاعر اور مصنف، گہرے سماجی شعور کےساتھ نظمیں اور غزلیں کہیں، پاکستان سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالے ’قومی زبان‘ کے مدیر رہے

Well-known poet and author to draw upon social issues, also edited an important journal 'Qaumi Zaban' published from Pakistan

ادیب سہیل کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    جب سے ہے باد خزاں صرصر غم آوارہ

    جب سے ہے باد خزاں صرصر غم آوارہ خشک پتوں کی طرح رہتے ہیں ہم آوارہ کچھ تو ہے بات کہ ہے موسم گل کے با وصف بوئے گل بوئے صبا بوئے صنم آوارہ کنج در کنج ستم خوردہ غزالوں کو ابھی تا بہ کے رکھے گی یہ لذت رم آوارہ حجلہ سنگ سر رہ میں نہ جانے کتنے رونمائی کو ہیں بیتاب صنم آوارہ ہے غم زیست ...

    مزید پڑھیے

    کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے

    کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے صورت‌ گران عصر کا تھا انتظار کش تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے روز ازل سے ...

    مزید پڑھیے

    پیچ و خم وقت نے سو طرح ابھارے لوگو

    پیچ و خم وقت نے سو طرح ابھارے لوگو کاکل زیست مگر ہم نے سنوارے لوگو اپنے سائے سے تمہیں آپ ہے دہشت زدگی تم ہو کس مصلحت وقت کے مارے لوگو ہم سفر کس کو کہیں کس کو سنائیں غم دل پنبہ در گوش ہوئے سارے سہارے لوگو ضربت سنگ بنے اپنی صدا کے غنچے گنبد جہد میں ہم جب بھی پکارے لوگو مجھ سے تم ...

    مزید پڑھیے

    دیار جاں پہ مسلط عجب زمانہ رہا

    دیار جاں پہ مسلط عجب زمانہ رہا کہ دل میں درد لبوں پر رواں ترانہ رہا کسی پہ برق گری شاخ جاں سلگ اٹھی کسی پہ سنگ چلے سر مرا نشانہ رہا قدم قدم پہ ملی گرچہ صرصر‌ خوں ریز ہجوم گل اسی انداز سے روانہ رہا عدوئے دوست کبھی مجھ کو معتبر نہ ہوا ازل سے اپنا یہ معیار دوستانہ رہا جو قدر فن کا ...

    مزید پڑھیے

    ہوں بے سراغ راہ ناپتا ہوں

    ہوں بے سراغ راہ ناپتا ہوں اس طرف اس طرف کو بھاگتا ہوں وہ کب کا مکاں کر گیا ہے خالی اک لاگ ہے در کو تاکتا ہوں تھا قرب ہی قرب حاصل اک دن اب خواب میں اس کے جاگتا ہوں پنبہ بگوش ہو جائیں سامع میں شور کی حد پھلانگتا ہوں نازک ہے بہت یہ کار نغمہ اس پہ صدا کے سنگ مارتا ہوں

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    خالی ہاتھ سوالی چہرے

    ہم بھی ہیں اس شہر کے باسی جس نے لاکھوں ہاتھوں میں کشکول دیا ہے کل تک تھا یہ اپنا عالم راہ میں وا ہاتھوں میں جب تک اک اک چونی رکھ نہیں دیتے دل کو چین نہیں آتا تھا گھر والی بھی اک دو خالی پیٹ میں دانے پہنچا کر ہی خود کھانے میں سکھ پاتی تھی آج یہ منزل آ پہنچی ہے کل سے زیادہ خالی ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    پرندے

    پرندہ جو ہونٹوں پہ پر تولتا تھا اسے باز رکھنے کی خاطر اک آسیب تھا میرے در پے قد اس کا فلک ناپتا تھا نگاہیں اٹھاؤ جو چہرے کی جانب تو گھٹنے سے اٹکیں مجھے اس نے مہرے کی صورت اٹھایا اور اک سوئمنگ پول میں لا کے ڈالا وہ یہ چاہتا تھا کہ پانی میں یہ آگ بھڑکانے والی حسیں مچھلیاں مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    فاصلہ

    زمانہ وہ بھی تھا اب سے پہلے کسی خبر کو کہیں رسائی کے واسطے اک صدی کا عرصہ لگانا پڑتا تھا اس کے با وصف کبھی مسافر کو بازیابی نصیب ہوتی تھی اور کبھی راستے میں دم اس کا ٹوٹ جاتا تھا مسافتوں کا طویل دھاگا اگرچہ گولے میں اٹ گیا ہے طناب دھرتی کی یوں کھنچی ہے جہاں کہیں ہو رہا ہے جو کچھ ...

    مزید پڑھیے