فاصلہ
زمانہ وہ بھی تھا اب سے پہلے
کسی خبر کو کہیں رسائی کے واسطے اک صدی کا عرصہ لگانا پڑتا تھا
اس کے با وصف
کبھی مسافر کو بازیابی نصیب ہوتی تھی اور کبھی راستے میں دم اس کا ٹوٹ جاتا تھا
مسافتوں کا طویل دھاگا اگرچہ گولے میں اٹ گیا ہے
طناب دھرتی کی یوں کھنچی ہے
جہاں کہیں ہو رہا ہے جو کچھ بھی اس عمل میں تو دوسرے بھی اسی عمل میں اسی طرح حظ اٹھا رہے ہیں
یہ گھر سے باہر کے لمحے لمحے سے باخبر ہیں
مگر انہیں اپنے گھر کی کوئی خبر نہیں ہے
کسی کی خاطر پڑوس بستا ہے کالے کوسوں
کوئی خود اپنے ہی گھر میں ایک اجنبی ہوا ہے
دلوں کی قربت میں ریت دوری کی اڑ رہی ہے
عجیب سا فاصلہ اگا ہے