Aagha Akbarabadi

آغا اکبرآبادی

ممتاز کلا سکی شاعر،غزلوں میں غیر روایتی عشق اور رومان پسندی کے لیے معروف ،داغ کے ہم عصر

Prominent classical poet and contemporary of Dagh Dehlavi, reflecting all the values of romantic bohimianism of classical Urdu ghazal.

آغا اکبرآبادی کی غزل

    بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم

    بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم مرا طائر دل اسی قید میں ہے مجھے زلف کے دام بلا کی قسم نہیں بھاتا مجھے کوئی رشک پری کوئی لاکھ حسیں ہو بلا سے مری مرا دل ترا عاشق شیفتہ ہے مجھے تیرے ہی ناز و ادا کی قسم مرے دل کو ذرا نہیں تاب و تعب کہ اٹھاؤں تمہارا یہ قہر و ...

    مزید پڑھیے

    خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا

    خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا زخم دل آپ ہیں شورش پہ نمکداں کیسا ہاتھ وحشت میں نہ پونچھے تو گریباں کیسا خار صحرا سے نہ الجھے تو وہ داماں کیسا کوچۂ یار کو دعویٰ ہے کہ جنت میں ہوں خلد کہتے ہیں کسے روضۂ رضواں کیسا اسی معبود کا ہے دیر و حرم میں جلوہ بحث کس بات کی ہے گبر و ...

    مزید پڑھیے

    مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا

    مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا مشتاق ہوں وصیٔ نبی کے جمال کا خواہاں گہر کا ہوں نہ میں طالب ہوں لال کا مشتاق ہوں تمہارے دہن کے اگال کا دیکھو تو ایک جا پہ ٹھہرتی نہیں نظر لپکا پڑا ہے آنکھ کو کیا دیکھ بھال کا کیا ان سے فیض پہنچے جو خود تیرہ بخت ہیں کھلتے نہ دیکھا ہم نے کبھی پھول ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ترے اے نگار کیا ہے

    دل میں ترے اے نگار کیا ہے ہوتا نہیں ہمکنار کیا ہے آیا جو دم وہ ہے غنیمت اس زیست کا اعتبار کیا ہے ہیں سیب سے بھی وہ چھاتیاں سخت آگے ان کے انار کیا ہے دنیا کے یہ سب ڈھکوسلے ہیں تربت کیسی مزار کیا ہے طاؤس سے چھیڑ چھاڑ کیسی ہاں اے دل داغدار کیا ہے جو جو وہ رنج دیں اٹھاؤ جب دل ہی دیا ...

    مزید پڑھیے

    مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے

    مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے نمک زخم جگر پر اور ڈالے جس کا جی چاہے جگر موجود ہے تو وہ بنا لے جس کا جی چاہے گلا حاضر ہے خنجر آزما لے جس کا جی چاہے اگر ہے حسن کا دعویٰ مہ و خورشید دونوں میں کف پا سے تمہارے منہ ملا لے جس کا جی چاہے یہ مشت استخواں اپنے کسی کے کام میں آئیں ہما ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا

    پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا ہاتھ پھر ہوویں گے اور اپنا گریباں ہوگا دل وحشی تو نہ کر عشق پریشاں ہوگا مثل آئینہ کے پھر ششدر و حیراں ہوگا گر یہی عشق کا آغاز ہے تو سن لینا لاش ہووے گی مری کوچۂ جاناں ہوگا ڈوب کر مرنے کا شوق اس سے ہی پوچھ اے قاتل جس نے دیکھا یہ ترا چاہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہتے ہیں اٹھو سحر ہو گئی

    وہ کہتے ہیں اٹھو سحر ہو گئی ازاں ہو گئی توپ سر ہو گئی گلے سے ملو اب تو بہر خدا تڑپتے مجھے رات بھر ہو گئی الٰہی ہوا جذب الفت کو کیا مری آہ کیوں بے اثر ہو گئی زمانہ تو اے جان برگشتہ تھا تمہاری بھی ترچھی نظر ہو گئی ہوئے سر کٹانے کو تیار ہم جو واں تیغ زیب کمر ہو گئی دکھائی مجھے کس ...

    مزید پڑھیے

    ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں

    ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں تمہاری تیر نگہ کے شکار ہم بھی ہیں ازل سے داخل فرد شمار ہم بھی ہیں تمہارے چاہنے والوں میں یار ہم بھی ہیں ہمیشہ ہم سے کدورت رہی حسینوں کو نہ دل سے نکلے کبھی وہ غبار ہم بھی ہیں مسافروں کی تواضع سے نام ہوتا ہے کرم کرو کہ غریب الدیار ہم بھی ہیں شراب ...

    مزید پڑھیے

    شدت ذات نے یہ حال بنایا اپنا

    شدت ذات نے یہ حال بنایا اپنا جسم مجنوں میں ہوا تنگ شلوکا اپنا یار بنتا نہیں وہ نور کا پتلا اپنا خاک میں مل گیا تسخیر کا دعویٰ اپنا میکشوں میں نہ کوئی مجھ سا نمازی ہوگا در مے خانہ پہ بچھتا ہے مصلیٰ اپنا وصل کی رات بہت طول ہوا آخر کار مختصر یہ ہے کہ فیصل ہوا قصہ اپنا گل کھلا کر ...

    مزید پڑھیے

    کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں

    کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں نور کے سانچے میں ڈھالے ہیں تمہارے ہاتھ پاؤں ضعف پیری چھا گیا زور جوانی چل بسا اب چلیں بتلائیے کس کے سہارے ہاتھ پاؤں مچھلیاں بازو پہ ابھریں ساق پا شمعیں بنیں خوب صاحب نے نکالے اب تو بارے ہاتھ پاؤں فوق ہیرے سے نہیں ہے میری جاں یاقوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3