Aagha Akbarabadi

آغا اکبرآبادی

ممتاز کلا سکی شاعر،غزلوں میں غیر روایتی عشق اور رومان پسندی کے لیے معروف ،داغ کے ہم عصر

Prominent classical poet and contemporary of Dagh Dehlavi, reflecting all the values of romantic bohimianism of classical Urdu ghazal.

آغا اکبرآبادی کے تمام مواد

24 غزل (Ghazal)

    بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم

    بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم مرا طائر دل اسی قید میں ہے مجھے زلف کے دام بلا کی قسم نہیں بھاتا مجھے کوئی رشک پری کوئی لاکھ حسیں ہو بلا سے مری مرا دل ترا عاشق شیفتہ ہے مجھے تیرے ہی ناز و ادا کی قسم مرے دل کو ذرا نہیں تاب و تعب کہ اٹھاؤں تمہارا یہ قہر و ...

    مزید پڑھیے

    خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا

    خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا زخم دل آپ ہیں شورش پہ نمکداں کیسا ہاتھ وحشت میں نہ پونچھے تو گریباں کیسا خار صحرا سے نہ الجھے تو وہ داماں کیسا کوچۂ یار کو دعویٰ ہے کہ جنت میں ہوں خلد کہتے ہیں کسے روضۂ رضواں کیسا اسی معبود کا ہے دیر و حرم میں جلوہ بحث کس بات کی ہے گبر و ...

    مزید پڑھیے

    مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا

    مداح ہوں میں دل سے محمد کی آل کا مشتاق ہوں وصیٔ نبی کے جمال کا خواہاں گہر کا ہوں نہ میں طالب ہوں لال کا مشتاق ہوں تمہارے دہن کے اگال کا دیکھو تو ایک جا پہ ٹھہرتی نہیں نظر لپکا پڑا ہے آنکھ کو کیا دیکھ بھال کا کیا ان سے فیض پہنچے جو خود تیرہ بخت ہیں کھلتے نہ دیکھا ہم نے کبھی پھول ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ترے اے نگار کیا ہے

    دل میں ترے اے نگار کیا ہے ہوتا نہیں ہمکنار کیا ہے آیا جو دم وہ ہے غنیمت اس زیست کا اعتبار کیا ہے ہیں سیب سے بھی وہ چھاتیاں سخت آگے ان کے انار کیا ہے دنیا کے یہ سب ڈھکوسلے ہیں تربت کیسی مزار کیا ہے طاؤس سے چھیڑ چھاڑ کیسی ہاں اے دل داغدار کیا ہے جو جو وہ رنج دیں اٹھاؤ جب دل ہی دیا ...

    مزید پڑھیے

    مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے

    مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے نمک زخم جگر پر اور ڈالے جس کا جی چاہے جگر موجود ہے تو وہ بنا لے جس کا جی چاہے گلا حاضر ہے خنجر آزما لے جس کا جی چاہے اگر ہے حسن کا دعویٰ مہ و خورشید دونوں میں کف پا سے تمہارے منہ ملا لے جس کا جی چاہے یہ مشت استخواں اپنے کسی کے کام میں آئیں ہما ...

    مزید پڑھیے

تمام