اثر ہوتا نہیں ہے پتھروں پر

اثر ہوتا نہیں ہے پتھروں پر
ہمیں بھی ناز ہے اپنے سروں پر


میں ہلتی شاخ سے ڈرتا نہیں ہوں
بھروسا ہے مجھے اپنے پروں پر


دعائیں مانگتی رہتی ہیں ندیاں
امڈ آتے ہیں بادل ساگروں پر


مجھے ان بستیوں کی آرزو ہے
جہاں تالے نہیں ملتے گھروں پر


قلم کمزور پڑتا جا رہا ہے
سیاست چھا رہی ہے شاعروں پر


لڑے دونوں تھے ہندو اور مسلم
مگر کس کا لہو تھا خنجروں پر


اگر خود پر بھروسا ہے تو الفتؔ
ابھر آتے ہیں چہرے پتھروں پر