اکثر جوے کے کھیل میں ہاری گئی ہوں میں
اکثر جوے کے کھیل میں ہاری گئی ہوں میں
غیرت کے نام پر بھی تو ماری گئی ہوں میں
صیاد زیوروں میں جکڑتا رہا مجھے
پنجرے میں ڈالنے کو سنواری گئی ہوں میں
ناکردہ گناہوں کی سزا بھوگ رہی ہوں
شعلوں سے کئی بار گزاری گئی ہوں میں
کیوں پھر سے کٹہرے میں بلایا گیا مجھے
کیوں پھر صلیب پر سے اتاری گئی ہوں میں
ہے روح داغدار مرے اجلے جسم کی
لہجے کی مار مار کے ماری گئی ہوں میں
پھر سے تمہاری یاد دلائی گئی مجھے
پھر سے اسی گلی سے گزاری گئی ہوں میں
تنہائیاں تمہارا پتا پوچھنے لگیں
جس دن سے زندگی سے تمہاری گئی ہوں میں
میں آسماں پہ چاند ستاروں کی صف میں تھی
تیرے لیے زمیں پہ اتاری گئی ہوں میں
تم نے جو مسکرا کے تبسمؔ کہا مجھے
تم پر تمہارے نام پہ واری گئی ہوں میں