عجب ہوا کہ پرندے اڑان بھول گئے
عجب ہوا کہ پرندے اڑان بھول گئے
زمیں پہ رہنے لگے آسمان بھول گئے
ضرورتوں نے کچھ ایسا بنا دیا پاگل
ہم اپنا نام و نسب خاندان بھول گئے
جب اس نے چاند ہتھیلی سے چھو دیا مجھ کو
سفر کی جو بھی تھی ساری تکان بھول گئے
عجب ہوا کہ عدالت میں کل خلاف اس کے
بیان دینے گئے تھے بیان بھول گئے
زبان یار سمجھنے کی دھن میں اے قیصرؔ
جو اپنے پاس تھی وہ بھی زبان بھول گئے