ایسے کھلتے ہیں فلک پر یہ ستارے شب کے
ایسے کھلتے ہیں فلک پر یہ ستارے شب کے
جس طرح پھول ہوں سارے یہ بہار شب کے
تیری تصویر بنا کر تری زلفوں کے لئے
ہم نے کاغذ پہ کئی رنگ اتارے شب کے
وہ مصور جو بناتا ہے سحر کا چہرہ
اس سے کہنا کہ ابھی درد ابھارے شب کے
کیا کسی شخص کی ہجرت میں جلی ہیں راتیں
کیوں شراروں سے چمکتے ہیں ستارے شب کے
یہ ترے ہجر نے تحفے میں دیے ہیں ہم کو
یہ جو معصوم سے رشتے ہیں ہمارے شب کے
ایک مدت سے ہمیں نیند نہ آئی آشوؔ
عمر اک کاٹ دی ہم نے بھی سہارے شب کے