ایسا طوفاں ہے کہ ساحل کا نظارہ بھی نہیں

ایسا طوفاں ہے کہ ساحل کا نظارہ بھی نہیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی نہیں


کی دعا دشمن نے آخر میں نہ کہتا تھا تمہیں
دوست جو میرا نہیں ہے وہ تمہارا بھی نہیں


ڈوبتے دیکھا جو طوفاں میں نگاہیں پھیر لیں
دوستوں نے مجھ کو ساحل سے پکارا بھی نہیں


اے نگاہ شوق نظارہ یہ نظارہ ہے کیا
آشکارا بھی ہے جلوہ آشکارا بھی نہیں


آس رکھتا ہے کرم کی ہو کے محروم کرم
بے سہارا بھی ہے پرنمؔ بے سہارا بھی نہیں