اے موجۂ سراب تو پھانکے گی کتنی خاک

اے موجۂ سراب تو پھانکے گی کتنی خاک
مجھ کو ڈبونے کے لئے چھانے گی کتنی خاک


بچ جائے مشت بھر سہی دفنانے کے لئے
موج بلائے عشق میں ڈوبے گی کتنی خاک


کتنے حسین خواب ترستے ہیں دید کو
آئینۂ جمال پہ بیٹھے گی کتنی خاک


جس کے در و دریچہ و دیوار ہیں تباہ
اس خانۂ سکوت کو پوچھے گی کتنی خاک


کوئی تو چاہیے حد خوش فہمیٔ فریب
دنیا تو میری آنکھ میں جھونکے گی کتنی خاک


کیوں جھک گئی ہے بوجھ سے تو آسمان کے
اب سر اٹھا اے زندگی چاٹے گی کتنی خاک


مالن گلاب دفن بھی گلدان میں ہوئے
بھر بھر کے مٹھیاں ابھی ڈالے گی کتنی خاک


کب تک شفقؔ چلے گی یہ آندھی ملال کی
میرے اداس بام پہ برسے گی کتنی خاک